Question Summary: Working to prevent fraud in a Bank Question Detail:
Salam
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.
Brother in Islam,
Your desire to adopt a halaal course of action is encouraging. Adopting halaal invokes the mercy of Allah Ta'laa and barakah in your wealth.
It is permissible to work in a Bank to prevent fraud. [1]
And Allah Ta’āla Knows Best
Muhammad I.V Patel
Student Darul Iftaa Lusaka, Zambia
Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 391) [1]
(قوله وجاز تعمير كنيسة) قال في الخانية: ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (5/ 362)
ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها فلا بأس به؛ إذ ليس في نفس العمل معصية،
فتاوى قاضي خان (33/3)
لو أن مسلما آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل
فتاوی عثمانی جلد ٣ صفحہ ٣٩٦ مکتبہ دار العلوم کراچی
بینک کی ملازمت کا تفصیلی حکم
در اصل بینک کی ملازمت نا جائز ہونےکی دو وجہیں ہو سکتی ہیں،ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ ملازمت میں سود وغیرہ کے نا جائز معاملات میں اعانت ہے،دوسرے یہ کہ تنخاہ حرام مال سے ملنے کا احتمال ہےان میں سے پہلی وجہیں یعنی حرام کاموں میں مدد کا جہاں تک تعلق ہے،شریعت میں مدد کے مختلف درجے ہیں،ہر درجہ حرام نہیں،بلکہ صرف وہ مدد ناجائز ہےجو براہ راست حرام کام میں ہوں،مثلا سودی معاملہ کرنا،سود کا معاملہ لکھنا،سود کی رقم وصول کرنا وغیرہ-لیکن اگر براہ راست سودی معاملہ میں انسان کو ملوث نہ ہونا پڑے، بلکہ اس کام کی نوعیت ایسی ہو جیسے ڈرائیور،چپراسی،یا جائز ریسرچ وغیرہ تو اس میں چونکہ براہ راست مدد نہیں ہے،اس لئے اس کی گنجا ئش ہے-
جہاں تک حرام مال سے تنخاہ ملنے کا تعلق ہے، اس کے بارے مین شریعت کا اصول ہے کہ اگرایک مال جلال وھرام سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اس سے تنخواہ یا ہدیہ لینا ناجائز نہیں، لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے-بینک کا صورت حال یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے،1-اصل سرمایہ2-ڈپازیٹرز کے پیسے3-سود اور حرام کاموں کی آمدنی،4-جائز خدمات کی آمدنی،اس سارے مجموعے میں صرف نمبر3 حرام ہے،باقی کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر 1 اور نمبر دو کی کثرت ہوتی ہے،اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعہ غالب ہے،لہذاکسی جائز کام کی تنخاہاس سے وصول کی جاسکتی ہے-
یہ بنیاد ہےجس کی بناٰء پرعلماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس سے بھی اجتناب کیا جائے-
کتاب الفتاوی جلد ٥ صفحہ ٤١٠ زمزم پبلشرز
بینک کي ملازمت اس لۓ ناجائز ہے کہ اکثر اوقات یہ سودي لین دین میں تعاون ہوتا ہے اور سودي معاملات میں تعاون بھي جائز نہيں جب کہ گورنمنٹ کي دوسري ملازمتوں میں ملازمت کرنے والوں کا سود لینے اور دینے والوں سے کوئي تعلق نہیں ہوتا اس لۓ بینک کي ایسي ملازمت جس میں سودي کاروبار کے لکھنے یا لینے اور دینے میں تعاون ہوتا ہو جائز نہیں
ہے اور دوسري سرکاري ملازمتیں جن میں براہ راست کسي حرام کا ارتکاب نہ ہوتا ہو جائز ہیيں
احسن الفتاویٰ جلد ٧ صفحہ ٣٢٩
سودي کاروبار کرنے والے اداروں میں بجلي کي فٹنگ؟
آپ کے کام میں کوئي شرعي قباحت نہیں ہے اداروں کا سودي کاروبار ان کا فعل ہے جس کا وبال اور گناہ انہي پر ہے لہذا آپ کے کام کي اجرت بلا شبہ حلال ہے
|