Question Summary: Working in a food company which deals in pork. Question Detail:
Assalam o Alaikum, I am a Computer Engineer living in Australia. I have been contacted by a group of food companies that has various food businesses including Dairy Products, Sugar, Bakery Items, imported pork and fresh pork. My work will be in IT department desiging software for them which will record and report sales and finance. What is the ruling to work in IT department of such company directly? Also what if I get recruited by the recruiter and they take salary from that company and pays me? Please reply ASAP. Wassalam.
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. Your work as a computer engineer in the IT Department of the food companies to record and report sales is permissible. You are not dealing in pork and not responsible in the dealing of pork.1 Your income is permissible. And Allah Ta’āla Knows Best Huzaifah Deedat Student Darul Iftaa Lusaka, Zambia Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai. _____________________ العمل في مطاعم الكفار إنما يجوز بشرط أن لا يباشر المسلم سقي الخمر أو تقديم الخنزير، أو المحرمات الأخرى،1 بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 340)- القاضي محمد تقي العثماني بن الشيخ المفتي محمد شفيع-دار القلم سوال: کفار جو مال حرام طریقے سے حاصل کریں اس کا حکم؟ جواب: 1) امام زفر کے نزدیک تمام خطابات عامہ واردہ في الشرع درباۂ معاملات کفار کو بھي شامل ہیں خواہ وہ حربي ہوں یا ذمي اور عموم خطاب کي وجہ سے حکم بھي عموما ثابت ہوگا لہذا جو معاملات کفار اہل حرب واہل ذمہ خلاف شرع کریں گے- ان پر حکم فساد لگیا جائیگا- گو اہل حرب سے بوجہ عدم ولایت واہل ذمۃ سے بوجہ معاہدہ کے تعرض نہ کیا جاۓ گا 2) صاحبین کے نزدیک اہل حرب کے معاملات خلاف شرع ہیں ہر ایک پر حکم فساد نہ لگایا جاۓ گا کیونکہ انہوں نے احکام اسلام کا التزام نہیں کیا گویا ثبوت حکم کے لۓ ان کے نزدیک عموم خطاب کافي نہیں بلکہ التزام بھي شرط ہے اور وہ اہل حرب میں مفقود ہے لیکن اہل ذمہ کے جو معاملات اسلام کے مسایل متفق علیہا کے خلاف ہوں گے ان پر حکم فساد لگایا جائیگا کیونکہ وہ معاملات میں احکام اسلام کا التزام کرچکے ہیں 3) امام اعظم کے نزدیک اہل ذمہ کے بھي معاملات خلاف شرع پر حکم فساد نہ لگیا جاۓ گا بشرطیکہ وہ معاملات خود ان کے دین کے موافق ہوں کیونکہ اہل ذمہ نے معاملات میں احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے خلاف میں نہیں کیا- ہاں اگر کسي معاملہ کي بابت معاہدہ ہي میں ان سے شرط کر لي جاۓ اس کا التزام ان کي طرف سے ہوگا- باقي معاملات شرعیۃ جو ان کے معتقدات کے موافق نہیں اور نہ ان سے ان کے بارے میں کوئي شرط کي گئي ہے- ان میں اہل ذمہ کي طرف سے التزام نہیں پایا گیا لہذا ایسے معاملات جب وہ اپنے مذہب کے مووافق کریں گے تو ان کو صحیح مانا جائيگا اور حکم فساد نہ دیا جائيگا اس تفصیل سے شبہات مذکورہ سوال کا جواب ظاہر ہوگیا- اشکال کا منشہ یہ تھا کہ جب کفار مخاطب بالعقوبات ومعاملات ہیں تو اگر وہ کوئي معاملہ خلاف شرع کرکے روپیہ حاصل کریں اس کو حلال نہ کہنا چاہۓبلکہ حرام کہنا چاہۓ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کفار مخاطب باالفروع فی العقوبات والمعاملات اگر چہ ہیں لیکن لیکن حکم بالحرمۃ والفساد کے لۓ خطاب عام کافي نہیں بلکہ التزام بھي شرط ہے اہل حرب نے تو احکام اسلام کا التزام بلکل نہیں کیا نہ اپنے معتقد کے موافق ہیں اور نہ مخالف میں لہذا وہ تو جس طرح بھي روپیہ کمائيں خواہ رباء سے خواہ غصب سے خواہ بیوع باطلہ وفاسدہ سے خواہ اپنے مذہب کے موافق خواہ مخالف طریق سے بہر صورت وہ روپیہ وغیرہ ان کي ملک میں داخل ہوجائيگا اور مسلمان کو تنخواہ میں لینا اس کا جائز ہے اور اہل ذمہ نے احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے موافقات میں کیا ہے- مخالفات میں نہیں کیا- سوا ان امور کے جن کي شرط ان سے کر لي جاۓ- پس جو عقد اہل ذمہ اپنے دین کے موافق کریں وشرائط معاہدہ کے بھي خلاف نہ ہو اس میں حکم صحت دیا جائیگا گو وہ شریعت کے خلاف ہو البتہ جو عقد انکے دین کے بھي خلاف ہو یا شرائط معاہدہ کے خلاف ہو اس میں حکم فساد دیا جائیگا امداد الاحکام (390/4) مکتبہ دار العلوم کراچي کفار ابتداء صرف ایمان کے اور حدود وعقوبات مشروعۃ کے مخاطب ہوتے ہیں باقي معاملات وجزئي احکامات کے مخاطب بعد میں ہوتے ہیں اس لۓ ان کے آپس کے معاملات بر قرار اور نافذ رکھے جاتے ہیں جب تک کہ وہ حرام لعینہ وقبیح خداع چوري ڈاکہ وغیرہ کا ارتکاب نہ کریں ۔ ۔ ۔پس یہي حکم وحال یہاں بھي ہوگا کہ محکمہ جس کے اصحاب حل وعقد خالص غیر مسلم ہوں یا مشترک ہوتے ہوں مگر اقتدار اعلی غیر مسلم کے ہاتھ میں ہو اور وہ اپنے طور پر سودي کاروبار نفع حاصل کرکے کوئي رقم جمع کرے اور بطور تبرع کسي مسلمان ملازم کو دے تو اس کا لینا جائز رہے گا اور بمد انعام داخل ہوکر طیب وحلال شمار ہوگا ۔ ۔ ۔ اور اگر اس کا ظن غالب ہوجاۓ کہ ملازم اس رقم کو نہیں لے گا تو محکمہ اس رقم کو کسي غیر مسلم مذہبي ادارہ میں دان کھاتہ میں دیدیگا تو پھر یہ نہ لینا شرعا صحیح ومعتبر نہ ہوگا منتخبات نظام الفتاوی (208/1) مکتبہ رحمانیہ
|
Main Categories More Questions
|