Question Summary: Will the repayment of this outbonus also be considered haraam and therefore cannot be used and will have to be distributed to the needy? Question Detail:
I currently have a vehicle that is insured via outsurance in South Africa. As part of their scheme a bonus is paid after 3 years if you do not make any claims. The bonus is thereafter paid each year if no claims.This bonus is calculated as a percentage of the actual premiums paid over the years. I fully understand and acknowledge that conventional insurance is haraam. Will the repayment of this outbonus also be considered haraam and therefore cannot be used and will have to be distributed to the needy?
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. The out surance scheme as explained by you will still be prohibited.1 We advise that you cancel your policy and reclaim the premiums paid.2 And Allah Ta’āla Knows Best Huzaifah Deedat Student Darul Iftaa Lusaka, Zambia Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai. _______________________ 1ربا تو اس وجہ سے کہ جو رقم انشورنس کمپني کو ادا کي جارہي ہے فقہي نقطہ نظر سے اس کي حیثیت قرض کي ہے اور اس کي واپسي پر جو منافع ساتھ ملتے ہیں وہ گويا اس مہلت کا معاوضہ ہے جو قرض کي واپسسي کے لۓ مقرر کي گئي تھي اگرچہ انشورنس کمپني اصل رقم کے ساتھ جو منافع ديتي ہے اس بونس (bonus) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن اس کي حقیقت چونکہ "سود" کي ہے اس لۓ نام بدلنے سے اس کي حقيقت تبديل نہيں ہوسکتي ہے ۔۔۔ دوسرا مفسدہ اس میں "قمار" کا پایا جانا ہے وہ اس طرح کہ قمار کي حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرف مال ہو اور نفع اور نقصان کسي غیر معین اور غیر معلوم چيز پر معلق ہو اسي کو فقہاء کرام "خطر اور مخاطرۃ" سے تعبیر کرتے ہیں فتاوی دار العلوم زکريا (439/5) زم زم پبلشرز 2الضرورة تتقدر بقدرها رد المحتار (42/2) دار الفكر چونکہ گاڑي کے مالک کي طرف سے بیمہ کا معاہدہ بطبیب خاطر نہيں بلکہ حکومت کي طرف سے یکطرفہ جبر وظلم ہے لہذا بوقت ضرورت گنجائش ہے لیکن بصورت حادثۃ جمع کردہ رقم سے زائد واجب التصدق ہے احسن الفتاوی (25/7) ایچ ایم سعید کمپني خلاصہ یہ کہ بیمہ قطعا ناجائز ہے مگر عارضي طور پر کچھ وقت کے لۓ جب تک خطرے کے حالات ہوں دکان وغیرہ کو فسادیوں کي ضرارت اور ظلم سے بچانے کے لۓ مذکورہ بالا شرائط (زائد رقم غرباء کو دیدي جاۓ اور اگر بحالت اضطرار کچھ اپنے کام میں لینے پر مجبور ہوجاۓ تو خوشحال ہونے پر اسے خيرات کدینے) کے ساتھ بیمہ کرالینے کي گنجائش ہے عام اجازت نہیں فتاوی رحیمیۃ (132/6) دار الاشاعت اس طرح وہ تمام صورتیں جس میں کمپني اضافہ کے ساتھ رقم واپس کرتي ہے سود کے زمرہ میں آجاتي ہے جدید فقھي مسائل68/4) ) زم زم پبلشرز
|
Main Categories More Questions
|