Question Summary: My non-Muslim owner owns a share of a bank, can I work for him? Question Detail:
I am expecting a job as an Accountant in a Manufacturing company. This business is solely owned by a non muslim. This same person is also a shareholder in one of the conventional commercial bank in the country. Hence I want to know does working for a boss who is also partly an owner of a bank makes my employment haram? Can I accept this offer.? May allah's blessings & guidence be upon you. Jazakallahu Khair.
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. It is permissible to accept the offer. And Allah Ta’āla Knows Best Mu’ādh Chati Student Darul Iftaa Blackburn, England, UK Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai. قال الشيخ بدر الدين العيني رحمه الله تعالى "قال شمس الأئمة في كتابه في فصل بيان موجب الأمر في حق الكفار: لا خلاف أنهم مخاطبون بالإيمان لأن النبي صلى الله عليه وسلم بعث إلى الناس كافة ليدعوهم إلى الإيمان قال الله تعالى "قل يا أيها الناس إني رسول الله إليكم جميعا" ولا خلاف أنهم مخاطبون بالمشروع من العقوبات ولا خلاف أن الخطاب بالمعاملات يتناولهم أيضا ولا خلاف أن الخطاب بالشرائع يتناولهم في حكم المؤاخذة في الآخرة فأما في وجوب الأداء في أحكام الدنيا فمذهب العراقيين من أصحابنا أن الخطاب يتناولهم أيضا والأداء واجب عليهم ومشايخ ديارنا يقولون إنهم لا يخاطبون بأداء ما يحتمل السقوط من العبادات" اهـ فليتأمل وقال العلامة ابن عابدين في رد المحتار في بحث الجزية من كتاب الجهاد ناقلا عن شرح المنار لصاحب البحر: "إن الكفار مخاطبون بالإيمان وبالعقوبات – سوى حد الشرب – والمعاملات وأما العبادات فقال السمرقنديون: إنهم غير مخاطبين أداء واعتقادا وقال البخاريون: إنهم غير مخاطبين بهما أداء فقط وقال العراقيون: إنهم مخاطبون بهما فيعاقبون عليهما وهو المعتمد" اهـ ويؤيد هذا الأخير قوله تعالى "وويل للمشركين الذين لا يؤتون الزكاة" "قالوا لم نك من المصلين" الآيتين فتحصل من هذا كله أن الكفار يعاقبون على ترك اعتقاد الصلاة مثلا وترك أدائها كليهما عند من قال بتعلق الخطاب اعتقادا لا أداء ولا يعاقبون على ترك واحد منهما عند الشرذمة القائلة بعدم تعلق الخطاب بهم أصلا إلا بسبب ترك الإيمان بالتوحيد والرسالة فالنزاع تحققه بحسب تعلق الخطاب في الدنيا وتبينه وظهور آثاره في الآخرة فليتنبه له وقال علامة عصرنا الفاضل الكشميري أطال الله بقاءه: "إن قولهم: الكفار مخطابون بالمعاملات إن كان المراد به الخطاب ثوابا وعقابا في الآخرة فمسلم لا شك فيه وإن كان المراد الخطاب صحة وفسادا في أحكام الدنيا: فليس هذا عندي على الإطلاق فقد صرح في الهداية أن الكافر إذا تزوج بلا شهود أو في عدة كافر – وذلك في دينهم جائز – ثم أسلما أقرا عليه عند أبي حنيفة رضي الله عنه لأن الحرمة لا يمكن إثباتها ههنا حقا للشرع لأنهم لا يخاطبون بحقوقه ولا وجه لإيجاب العدة حقا للزوج لأنه لا يعتقده وصرح الشيخ ابن الهمام رحمه الله تعالى أن المسلم إذا باع من الحربي ميتة أو خنزيرا أو فأرة وأخذ المال يحل كل ذلك عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى ولو كانوا مكلفين بالمعاملات بحسب الصحة والفساد لم يصح النكاح في الصورة الأولى ولم يحل ذلك المال في الصورة الثانية ولهذا نظائر أخرىى تقف عليها بعد التتبع البالغ فكما أنهم استثنوا من العقوبات حد الشرب كذلك ينبغي تقييد المعاملات أيضا بشيء يخرج أمثال هذه الفروع المنصوصة عليها في كتب الفقه" اهـ وهذا تفصيل لا بد من المصير إليه والله أعلم. فتح الملهم للشيخ شبير أحمد عثماني (368/1) دار القلم الكافر مكلف بالفروع عند الشافعية ومشايخنا العراقيين خلافا للحنفية البخاريين وقيل للعتزلة أيضا وقيل مكلف بالهني فقط وأما التكليف بالعقوبات والمعاملات فإتفاق بيننا وبينهم بعقد الذمة فواتح الرحموت لعبد العلي الهندي ت1225ه (108/1) دار إحياء التراث سوال: کفار جو مال حرام طریقے سے حاصل کریں اس کا حکم؟ جواب: 1) امام زفر کے نزدیک تمام خطابات عامہ واردہ في الشرع درباۂ معاملات کفار کو بھي شامل ہیں خواہ وہ حربي ہوں یا ذمي اور عموم خطاب کي وجہ سے حکم بھي عموما ثابت ہوگا لہذا جو معاملات کفار اہل حرب واہل ذمہ خلاف شرع کریں گے- ان پر حکم فساد لگیا جائیگا- گو اہل حرب سے بوجہ عدم ولایت واہل ذمۃ سے بوجہ معاہدہ کے تعرض نہ کیا جاۓ گا 2) صاحبین کے نزدیک اہل حرب کے معاملات خلاف شرع ہیں ہر ایک پر حکم فساد نہ لگایا جاۓ گا کیونکہ انہوں نے احکام اسلام کا التزام نہیں کیا گویا ثبوت حکم کے لۓ ان کے نزدیک عموم خطاب کافي نہیں بلکہ التزام بھي شرط ہے اور وہ اہل حرب میں مفقود ہے لیکن اہل ذمہ کے جو معاملات اسلام کے مسایل متفق علیہا کے خلاف ہوں گے ان پر حکم فساد لگایا جائیگا کیونکہ وہ معاملات میں احکام اسلام کا التزام کرچکے ہیں 3) امام اعظم کے نزدیک اہل ذمہ کے بھي معاملات خلاف شرع پر حکم فساد نہ لگیا جاۓ گا بشرطیکہ وہ معاملات خود ان کے دین کے موافق ہوں کیونکہ اہل ذمہ نے معاملات میں احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے خلاف میں نہیں کیا- ہاں اگر کسي معاملہ کي بابت معاہدہ ہي میں ان سے شرط کر لي جاۓ اس کا التزام ان کي طرف سے ہوگا- باقي معاملات شرعیۃ جو ان کے معتقدات کے موافق نہیں اور نہ ان سے ان کے بارے میں کوئي شرط کي گئي ہے- ان میں اہل ذمہ کي طرف سے التزام نہیں پایا گیا لہذا ایسے معاملات جب وہ اپنے مذہب کے مووافق کریں گے تو ان کو صحیح مانا جائيگا اور حکم فساد نہ دیا جائيگا اس تفصیل سے شبہات مذکورہ سوال کا جواب ظاہر ہوگیا- اشکال کا منشہ یہ تھا کہ جب کفار مخاطب بالعقوبات ومعاملات ہیں تو اگر وہ کوئي معاملہ خلاف شرع کرکے روپیہ حاصل کریں اس کو حلال نہ کہنا چاہۓبلکہ حرام کہنا چاہۓ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کفار مخاطب باالفروع فی العقوبات والمعاملات اگر چہ ہیں لیکن لیکن حکم بالحرمۃ والفساد کے لۓ خطاب عام کافي نہیں بلکہ التزام بھي شرط ہے اہل حرب نے تو احکام اسلام کا التزام بلکل نہیں کیا نہ اپنے معتقد کے موافق ہیں اور نہ مخالف میں لہذا وہ تو جس طرح بھي روپیہ کمائيں خواہ رباء سے خواہ غصب سے خواہ بیوع باطلہ وفاسدہ سے خواہ اپنے مذہب کے موافق خواہ مخالف طریق سے بہر صورت وہ روپیہ وغیرہ ان کي ملک میں داخل ہوجائيگا اور مسلمان کو تنخواہ میں لینا اس کا جائز ہے اور اہل ذمہ نے احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے موافقات میں کیا ہے- مخالفات میں نہیں کیا- سوا ان امور کے جن کي شرط ان سے کر لي جاۓ- پس جو عقد اہل ذمہ اپنے دین کے موافق کریں وشرائط معاہدہ کے بھي خلاف نہ ہو اس میں حکم صحت دیا جائیگا گو وہ شریعت کے خلاف ہو البتہ جو عقد انکے دین کے بھي خلاف ہو یا شرائط معاہدہ کے خلاف ہو اس میں حکم فساد دیا جائیگا امداد الاحکام (390/4) مکتبہ دار العلوم کراچي کفار ابتداء صرف ایمان کے اور حدود وعقوبات مشروعۃ کے مخاطب ہوتے ہیں باقي معاملات وجزئي احکامات کے مخاطب بعد میں ہوتے ہیں اس لۓ ان کے آپس کے معاملات بر قرار اور نافذ رکھے جاتے ہیں جب تک کہ وہ حرام لعینہ وقبیح خداع چوري ڈاکہ وغیرہ کا ارتکاب نہ کریں ۔ ۔ ۔ پس یہي حکم وحال یہاں بھي ہوگا کہ محکمہ جس کے اصحاب حل وعقد خالص غیر مسلم ہوں یا مشترک ہوتے ہوں مگر اقتدار اعلی غیر مسلم کے ہاتھ میں ہو اور وہ اپنے طور پر سودي کاروبار نفع حاصل کرکے کوئي رقم جمع کرے اور بطور تبرع کسي مسلمان ملازم کو دے تو اس کا لینا جائز رہے گا اور بمد انعام داخل ہوکر طیب وحلال شمار ہوگا ۔ ۔ ۔ اور اگر اس کا ظن غالب ہوجاۓ کہ ملازم اس رقم کو نہیں لے گا تو محکمہ اس رقم کو کسي غیر مسلم مذہبي ادارہ میں دان کھاتہ میں دیدیگا تو پھر یہ نہ لینا شرعا صحیح ومعتبر نہ ہوگا منتخبات نظام الفتاوی (208/1) مکتبہ رحمانیہ اس مسئلہ کا اصل مدار اس پر ہے کہ کفار مخاطب بالفروع ہیں یا نہیں اور اس میں فقہاء کے ما بین اختلاف ہے بعض علماء کی رائی یہ ہے کہ وہ ابتداء فقط مخاطب بالایمان والعقوبات ہیں مخاطب بالمعاملات نہیں ہیں جب کہ دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ کفار مخاطب بالمعاملت ہیں بہر حال کفار سود کی رقم کے مالک ہیں یہی ظاہر ہوتا ہے فتاوی دار العلوم زکریا (600/5) زم زم پبلشرز دار الحرب میں حربیوں سے عقود فاسدہ کے ذرییعہ مال حاصل کرنا جائز ہہے یہ قول اگر چہ عام حالات میں مفتی بہ نہیں لیکن ایسي حاجت کے موقع پر اس کے اوپر فتوی دینے کي گنجائش معلوم ہوتي ہے- اسلام اور جدید معاشي مسايل (317/3) ادارہ اسلامیات سوال: حرام کاروبار والے غیر مسلم کے ساتھ معاملات کا حکم؟ جواب: جس غیر مسلم کي کمائي سوال میں درج شدہ معاملات کي ہو اس کے ساتھ مسلمان کا صحیح لین دین جائز ہے فتاوی دار العلوم زکریا (241/5) زمزم پبلشرز
|
Main Categories More Questions
|