Question Summary: Medical Aid Question Detail:
is it permissable for me to take out medical aid for my wife i will be pay but i will not phyically benefit from it she will not be paying however she will use it and benefit from it is this allowed islamically? please reply quick !
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. It is not permissible to take out conventional medical aid as it involves interest and uncertainty (gharar), both of which are prohibited in Shari’ah. There will be no difference in the prohibition if you take out the medical aid for yourself and not use it. It will remain prohibited.[1] If it is a legal requirement for you to take out medical aid, then you will be excused.[2] If your wife experiences health related issues and you are in financial constraints, then you may discuss this with a Mufti in your locality who is well known in the field of Fatawa and has experience to assess your situation and advise you accordingly. And Allah Ta’āla Knows Best Ahmad Jafari Student Darul Iftaa Atlanta, Georgia, USA Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai. (427/5) فتاوی دار العلوم زکریا- زمزم پبلشر میڈکل ایڈ جو آج کل غیر مسلم ممالک میں رواج پذیر ہے عقد اجارہ کی حیثیت سے جائز ہونا چاہیے کیونکے اس عقد کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک فریق مخصوص ومتعین رقم دیتا ہے اور دوسرا فریق اس کے علاج کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کمپنی جو عقد ضمان کی وجہ سے ہر ماہ وصول کرتی ہے اگرچہ رقم دینے والا بیمار نہ ہو پھر بھی اس رقم کا لینا درست ہے جیسا کہ عقد موالات میں مذکور ہوا کہ جنایت نہ کرنے کے باوجود میراث ملتی ہے اور فقہائ نے میراث کا لینا درست قرار دیا ہے۔ میڈکل ایڈ کی وہ صورت جس میں شخص رقم وصول کرتا ہے یہ صورت قطعا نا جائز ہے کہ علاھ وغیرہ کیلئے ان سے رقم وصول کیجائے اس لئے کہ ملنے والی رقم لامحالہ آپ کی جمع کردہ رقم سے زائد ہوگی اور جو زیادتی آپ وصول کریںگے وہ کسی چیز کے عوض میں نہیں ہے بلکہ آم کی رقم پر اضافی رقم رقم صریح سود کے زمرہ میں داخل ہو کر ناجائز ہوگی۔ انشورنس (بیمہ) ہے کیا؟[1] اسلام اور جدید معیشت وتجارت 194- مکتبہ معارف القرآن بیمہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو مستقبل میں جو خطرات در پیش ہوتے ہیں کوئی انسان یا ادارہ ضمانت لیتا ہے کہ فلاں قسم کے خطرات کے مالی اثرات کی میں تلافی کردوں گا۔ (459/4) جواهر الفقه- مکتبہ دار العلوم کراچی حقیقت کے لحاظ سے بیمہ اور بینک میں فرق نہیں ہے، حقیقت میں اگر فرق ہے تو اتنا کہ اس میں ربوا کے ساتھ "غرر" بھی پایا جاتا ہے۔ بیمہ کرانے والا کمپنی کو روپیہ قرض دیتا ہے اور کمپنی اس رقم سے سودی کاروبار یا تجارت وغیرہ کر کے نفع حاصل کرتی ہے۔ جس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس منفعت کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ بیمہ کرائیں، بینک بھی یہی کرتے ہیں، البتہ اس میں شرح سود مختلف حالات وشرائط کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ بینک میں عموما ایسا نہیں ہوتا۔ (439/5) فتاوی دار العلوم زکریا- زمزم پبلشر فی زماننا انشورنس کا معاملہ جن بنیادوں پر استوار ہے ان کے تحت شرعی نقطہ نظر اور اصول وقواعد کی روشنی میں کسی بھی قسم کی املاک اور جائداد کو انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اور عدم جواز کا حکم دو ایسے محرمات کے پائے جانے کی وجہ سے ہے جن کی تحریم نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت اور ظاہر وباہر ہے، چنانچہ وہ دو مفاسد ربا وقمار کا پایہ جانا ہے، جس کی بنا پر یہ معاملہ ناجائز ہے۔ بیمہ (انشورنس) درست نہیں الا کہ حکومت کی طرف سے لازم ہو[2] (25/7) احسن الفتاوی جب کہ بیمہ طیب خاطر کی وجہ سے نہ ہو بلکہ حکومت کی طرف سے ہو تو اس صورت میں بیمہ لینا درست ہوگا، لیکن بسورت حادثہ جمع کردہ رقم سے زائد واجب التصدق ہے۔ (309/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ بیمہ کی جو موجودہ صورتیں رائج ہیں وہ شرعی نقطہ نظرسےصحیح نہیں بلکہ قمار اور جوا کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ اس لئے اپنے اختیار سے بیمہ کرانا جائز نہیں اور اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے بیمہ کرانا پڑے تو اپنی ادا کردہ رقم سے زیادہ وصول کرنا درست نہیں چونکہ بیمہ کا کاروبار درست نہیں اس لئے بیمہ کمپنی میں ملازمت بھی صحیح نہیں۔ (312/6) جامع الفتاوی- ادارہ تالیفات اشرفیہ بیمہ سود وقمار کی ایک شکل ہے، اختیاری حالت میں کرانا ناجائز ہے، لازمی ہونے کی صورت میں قانونی طور سے جس قدر کم سے کم مقدار بیمہ کرانے کی گنجائش ہو اسی پر اکتفائ کیا جائے۔
|
Main Categories More Questions
|