Question Summary: Is it permissible to say ya ali madad or ya ali mushkil khusha? Question Detail:
Is it permissible to say ya ali madad or ya ali mushkil khusha? jizakallah.
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. The meaning of the statement, “Ya ‘Ali madad,” is, “O ‘Ali, help me.” The meaning of the statement, “Ya ‘Ali mushkil kusha,” is, “O ‘Ali, remover of difficulties.” As Muslims, we believe in Tawhid (the Oneness of Allah Ta‘ala). We believe that Allah Ta‘ala alone has power over everything. Consider the following verses of the Qur’an: إِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. Indeed, Allah has power over all things. (2:20) وَإِن يَمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَه إِلاَّ هُوَ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. And if Allah touches you with misfortune, there is no one who can remove it but He; and if He touches you with good fortune, it is He who has power over all things. (6:17) وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ أَحَدًا. And the places of worship are for Allah alone, so do not invoke anyone along with Allah. (72:18) اُدْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَكُمْ Call unto me, I will respond to you. (40:60) Consider the following hadith: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا فَقَالَ ... إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، الخ. It is narrated from ‘Abdullah ibn Mas‘ud (radhiallahu ‘anhu) that he said, “I was (riding) behind Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wa sallam) one day when he said, ‘…When you ask, ask Allah, and when you seek help, seek help from Allah.’” (Tirmidhi, 2516)[1] If anyone believes that a human has power like Allah Ta‘ala or he makes du‘a to a human asking him to relieve him from difficulties, that is shirk (associating partnership with Allah Ta‘ala). To believe that ‘Ali (radhiallahu ‘anhu) can hear one’s supplication and come to one’s aid is shirk. It is not permissible to call upon ‘Ali (radhiallahu ‘anhu) or anyone else besides Allah Ta‘ala for assistance in easing difficulties.[2] And Allah Ta‘ālā Knows Best. Lutfi Alam Student, Darul Iftaa New York, USA Checked and Approved by: Mufti Ebrahim Desai.
[1]
(سنن الترمذي ت شاكر، حديث ٢٥١٦، ٤/٦٦٧، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر، الطبعة الثانية)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: «يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ» هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
[2]
(فتاوی دار العلوم ديوبند، ۱/۱۱۲-۱۱۳)
يا علی اور يا خواجہ بھي کہہ سکتے ہيں يا نہيں؟ ۔۔۔ ايسا کہنا درست نہيں ہے جيسا کے اياك نعبد واياك نستعين خاص اس طرف مشير ہے کہ سواۓ حق تعالی کے کسی سے استعانت نہ چاہۓ اور حديث شريف ميں ہے واذا استعنت فاستعن بالله اور جب تو مدد چاہے تو اللہ سے چاہ – الغرض غير اللہ سے اعانت طلب کرنا اور ان کو قضاۓ حاجت کے لۓ پکارنا نا جائز اور شرک ہے اور بلا اس نيت کے بھي خوب نہيں ہے۔
(فتاوی محموديہ، ۳/۱۱٦-۱۱۷)
مشکلات حل کرنے کيلۓ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آواز دينا اور يے عقيدہ رکھنا کے اس سے مشکلات حل ہوتی ہيں غلط اور مشابہ شرک ہيں۔ اس سے توبہ اور احتياط لازم ہے۔
(فتاوی محمودیہ، ۱/۳٦۴)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت سی مشکل مقدمات اور معاملات کو آسانی سے حل فرمادیا کرتے تھے اس لئے ان کو "حلال المعضلات" کہتے تھے جس کا فارسی میں ترجمہ "مشکل کشا" ہے، لیکن ان کی محبت وعقیدت میں غلو کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر مشکل کو خواہ کسی زمانے میں پیش آئے حضرت علی رضی اللہ عنہ حل کرتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ پریشانی اور مصیبت کے وقت "یا علی" پکارتے ہیں حتی کہ اللہ پاک سے بھی وہ لوگ بےنیاز ہوگئے اور جملہ امور میں کارساز حقیقی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہی قرار دے لیا، یہ عقیدہ اور طریقہ اسلام کے خلاف اور شرک ہے اس سے بچنا لازم ہے۔
(ملخص روح المعاني، ٦/١٢٨)
وابتغوا إليه الوسيلة ... إن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم مثل يا سيدي فلان أغثني وليس ذلك من التوسل المباح في شيء وقد عده أناس من العلماء شركا وإن لا يكنه فهو قريب منه.
|