Question Summary: Do souls visit the house? Question Detail:
Is there any truth in saying that after a person passes away his or her soul visits their house three times daily or once a while.
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.
The souls of people after death are in either the illiyyeen or sijjeen.
Refer to the following verses:
إِنَّ كِتَـٰبَ ٱلۡأَبۡرَارِ لَفِى عِلِّيِّينَ
Translation:
The records of the righteous is in 'Illiyeen [Surah Mutaffifeen/ Verse 18]
إِنَّ كِتَـٰبَ ٱلۡفُجَّارِ لَفِى سِجِّينٍ۬
Translation:
The record of the evil doers is in Sijjin [Surah Mutaffifeen/ Verse 7]
Illiyeen is in the seventh heaven under the arsh and this is also where Jannah is located. Hence, it may be said that the souls are in Jannah.
Similarly, Sijjeen is in the seventh earth. This is where Jahannam is. Hence, it may be said that some souls are in Jahannam.
Moulana Zafar Ahmad Uthmani [Rahimahullah] mentions in Imdadul Ahkam:
مقر ارواح مؤمنین علیین ہے جو ایک مقام سماء سابع میں ہے،اور مقر ارواح کفار سجین ہے،جو ارض سابعہ کے نیچے ہے،لیکن ان مقامت میں ا رواح مقید نہیں ہے، بلکہ انکو اپنے جسد اول سے اور قبر سے بھی تعلق رہتا ے،اور بعض کو زمین یں تصرف و سیر کا بھی اختیار دیا جاتا ہے،جس کے بعد وہ پھر اپنے مقر پر پہنچ جاتے ہے باقی اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کے سب ارواح جمعرات یا جمع کو یا پندرہ شعبان کو اپنے گھر آتی ہے،کیونکہ اول تو زمین میں تصرف سب ارواح کو نہیں ہوتی۔ بلکہ خاص خاص کو ہوتی ہے،دوسرے جن کو تصرف و سیر فی الارض کا اختیار بھی دیا جاتا ہے یہ ضرور نہیں کہ وہ جمعرات یا جمع ہی کو زمین میں تصرف و سیر کرے ،اور تصرف و سیر میں اپنے گھر بھی ضرور آئیں، پس یہ عقیدہ بلا دلیل ہے جس سے احتراز لازم ہے، اشرف علی عرض کرتا ہے کہ جب اس عقیدہ کا بےدلل ہونا ثابت ہو گیا،اور عقیدہ بے دلیل کے باب میں حکم شرع ہے لا تقف ما لیس لک بہ علم،پس بنا بر اس آیت کے ایسا عقیدہ رکھنے سے عاصی و مبتدع ہوگا،اس سے توبہ واجب ہے
Translation:
The souls of the believers stay in illiyyeen, which is a place in the seventh heaven. The souls of kuffar stay in sijjeen, which is under the seventh earth. The souls are not restricted in these places, but they have connection with their bodies and graves. Some souls are given permission to come on earth after which they go back to their places.[i] However, there is no any proof showing that all the souls visit the houses on Thursdays, Fridays and 15th Shaban, as not all souls are given the option to come on earth. Only some special souls come on earth and it is not necessary that this souls visit their homes and only come on Thursdays, Fridays and 15th Shaban. Therefore, this belief has no proof. One should abstain from having such a belief. Moulana Ashraf Ali Thanwi [Rahimahullah] says that when this belief is proven to have no proof, one should not have such a belief, as having such a belief will be bidah
[Imdadul Ahkam 1/818 Maktaba Darul-Uloom Karachi]
And Allah Ta’āla Knows Best
Ridwaan Ibn Khalid Esmail [Kasak]
Student Darul Iftaa Katete, Zambia
Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai.
[i]
شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور (ص: 239)
وَقَالَ الْحَافِظ إِبْنِ حجر فِي فَتَاوِيهِ أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين وأرواح الْكَافرين فِي سِجِّين وَلكُل روح بجسدها إتصال معنوي لَا يشبه الإتصال فِي الْحَيَاة الدُّنْيَا بل أشبه شَيْء بِهِ حَال النَّائِم وَإِن كَانَ هُوَ أَشد من حَال النَّائِم إتصالا قَالَ وَبِهَذَا يجمع بَين مَا ورد أَن مقرها فِي عليين أَو سِجِّين وَبَين مَا نَقله إِبْنِ عبد الْبر عَن الْجُمْهُور أَيْضا أَنَّهَا عِنْد أفنية قبورها قَالَ وَمَعَ ذَلِك فَهِيَ مَأْذُون لَهَا فِي التَّصَرُّف وتأوي إِلَى محلهَا من عليين أَو سِجِّين قَالَ وَإِذا نقل الْمَيِّت من قبر إِلَى قبر فالإتصال الْمَذْكُور مُسْتَمر وَكَذَا لَو تَفَرَّقت الْأَجْزَاء إنتهى قلت وَيُؤَيّد كَون الْمقر فِي عليين مَا أخرجه إِبْنِ عَسَاكِر من طَرِيق إِبْنِ إِسْحَاق قَالَ حَدثنِي الْحُسَيْن بن عبيد الله عَن إِبْنِ عَبَّاس أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ بعد قتل جَعْفَر لقد مر بِي اللَّيْلَة جَعْفَر يقتفي نَفرا من الْمَلَائِكَة لَهُ جَنَاحَانِ متخضبة قوادمها بِالدَّمِ يُرِيدُونَ بيشة بَلَدا بِالْيممن وَأخرج إِبْنِ عدي من حَدِيث عَليّ بن أبي طَالب رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ عرفت جعفرا فِي رفْقَة من الْمَلَائِكَة يبشرون أهل بيشة بالمطر
59 - وَأخرج الْحَاكِم عَن إِبْنِ عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ بَيْنَمَا النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم جَالس وَأَسْمَاء بنت عُمَيْس قريب مِنْهُ إِذْ رد السَّلَام وَقَالَ يَا أَسمَاء هَذَا جَعْفَر مَعَ جِبْرِيل وَمِيكَائِيل مروا فَسَلمُوا علينا وَأَخْبرنِي أَنه لقى الْمُشْركين يَوْم كَذَا وَكَذَا
الناشر: دار المعرفة – لبنانن
الفتاوى الفقهية الكبرى (2/ 8)
وَأَمَّا أَهْلُ التَّكْلِيفِ فَقَدْ اُخْتُلِفَ فِيهِمْ قَدِيمًا وَحَدِيثًا قَالَ أَحْمَدُ أَرْوَاحُهُمْ فِي الْجَنَّةِ قَالَ رُوِيَ عَنْهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ إذَا مَاتَ طَائِرٌ يَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ اللَّهُ تَعَالَى إلَى جَسَدِهِ حِينَ يَبْعَثُهُ وَعَنْ وَهْبٍ أَنَّهَا فِي دَارٍ يُقَالُ لَهَا الْبَيْضَاءُ فِي السَّممَاءِ السَّابِعَةِ وَعَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهَا تَكُونُ عَلَى الْقُبُورِ سَبْعَةَ أَيَّامٍ مِنْ يَوْمِ دُفِنَ لَا تُفَارِقُهُ قَالَ وَأَمَّا السَّلَامُ عَلَى الْقُبُورِ فَلَا يَدُلُّ عَلَى اسْتِقْرَارِ أَرْوَاحِهِمْ عَلَى أَفْنِيَةِ قُبُورِهِمْ فَإِنَّهُ يُسَلَّمُ عَلَى قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ وَالشُّهَدَاءِ وَأَرْوَاحُهُمْ فِي أَعْلَى عِلِّيِّينَ وَلَكِنْ لَهَا مَعَ ذَلِكَ اتِّصَالٌ سَرِيعٌ بِالْجَسَدِ وَلَا يَعْرِفُ كُنْهَ ذَلِكَ إلَّا اللَّهُ تَعَالَى وَيَشْهَدُ لِذَلِكَ الْأَحَادِيثُ الْمَرْفُوعَةُ وَالْمَوْقُوفَةُ عَلَى الصَّحَابَةِ كَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
وَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِي الدُّنْيَا عَنْ مَالِكٍ بَلَغَنِي أَنَّ الرُّوحَ مُرْسَلَةٌ تَذْهَبُ حَيْثُ شَاءَتْ وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوُهُ وَيَجْمَعُ هَذِهِ الْأَقْوَالَ مَا ذَكَرَهُ الْإِمَامُ الْعَارِفُ ابْنُ تُرْجُمَانَ فِي شَرْحِ أَسْمَاءِ اللَّهِ الْحُسْنَى
الناشر: المكتبة الإسلامية
امداد الاحکام 817/1
مقر ارواح کے متعلق علماء میں بہت اختلاف ہے،۔۔۔عامہ مؤمنن کے متعلق کہتے ہے کہ جت میں رہتے ہے،بعض کہتے ہے جنت سے باہر رہتے ہے،بعض کا قول ہے قبر کے پاس رہتی ہےاور جہہاں چاہیں چلتی پھرتی ہے،اور بعض کا قول ہے کہ ارواح مؤمنین بئر زمزم یا جابیہ میں رہتی ہے،جو شامکا ایک شہر ہے،اور ارواح کفار حضر موت ایک کناں برہوتہے ان میں رہتی ہے،اور بعض کا قول ہے ارواح مؤمنین علیین میں رہتی ہے اور ارواح کفار سجین میں رہتی ہے،اور قبر اور جسد عنصاری سے بھی انکو تعلق رہتا ہے اور ممکن ہے کہ جابیہ و زمزم سے بھی کچھ تعلق ارواح مؤمنین کو اور بئر بر ہوت سے ارواح کفار کو بعد موت کا ہوتا ہونے
نصوص صحیحہ قرآنیہ و حدیثیہ سے حافظ ابن حجر کا قول زیادہ قوی ہے کہ مقر ارواح مؤمنین علیین ہے جو ایک مقام سماء سابع میں ہے،اور مقر ارواح کفار سجین ہے،جو ارض سابعہ کے نیچے ہے،لیکن ان مقامت میں ا رواح مقید نہیں ہے، بلکہ انکو اپنے جسد اول سے اور قبر سے بھی تعلق رہتا ے،اور بعض کو زمین یں تصرف و سیر کا بھی اختیار دیا جاتا ہے،جس کے بعد وہ پھر اپنے مقر پر پہنچ جاتے ہے
باقی اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کے سب ارواح جمعرات یا جمع کو یا پندرہ شعبان کو اپنے گھر آتی ہے،کیونکہ اول تو زین میں تصرف سب ارواح کو نہیں ہوتی۔ بلکہ خاص خاص کو ہوتی ہے،دوسرے جن کو تصرف و سیر فی الارض کا اختیار بھی دیا جاتا ہے یہ ضرور نہیں کہ وہ جمعرات یا جمع ہی کو زمین میں تصرف و سیر کرے ،اور تصرف و سیر میں اپنے گھر بھی ضرور آئیں، پس یہ عقیدہ بلا دلیل ہے جس سے احتراز لازم ہے
اشرف علی عرض کرتا ہے کہ جب اس عقیدہ کا بےدلل ہونا ثابت ہو گیا،اور عقیدہ بے دلیل کے باب میں حکم شرع ہے لا تقف ما لیس لک بہ علم،پس بنا بر اس آت کے ایسا عقیدہ رکھنے سے عاصی و مبتدع ہوگا،اس سے توبہ واجب ہےاور کسی کتاب میں کوئی مضمون ہونا حجۃ شرعیہ نہیں تا وقتیکہ اس پر کوئی دلیل نہ ہو،اور یہ چونکہ یہ امر متعلق کے نقل کے ہے،اس لۓ دلیل نقلی ہونا شر ہے،جو اصول سرعیہ کی روسے قابل استدلال ہو اور ایسی دلیل مفقود ہے،اس لۓ ایی کتاب کافی نہیں
ناشر:مکتبہ دار العلوم کراچی
فتاوی رحیمیہ 117/7
روح آسکتی ہے ار آتی ہے۔واقعات و مشاہدات شاہد ہے ۔۔۔شاہ صاحب سمجھ گۓ کہ یہ روح مجسم ہے۔آواز دی کے اے درویش آکا اسم گرامی کیا ہے؟ فرواا سعدی اس فقیر کا نام ہے۔اس واقعہ سےبھی تعیید ہوتی ہے کہ روح آ سکتی لیکن ا رواح کا آنا اکے اختر میں نہیں،حکم خداوندی پر موقوف ہے۔یہ اعتقاد حیح نہیں کہ تمام ارواح شب جمعہ یا جمعرات کو اپنے گھروں پر آتی ہے اور خیرات کی درخاست کرتی ہے اور خیرات نہ کرنےوالوں پر بد دعا کرتی ہے۔اور مرنے کے بعد روزانہ ایک ماہ ک گھشت کری ہے۔کیرکہ مزکورہ باتیں حدیث صحیحہ سے ثابت نہیں۔بہشتی زیور میں زیادہ تر مزکورہ عقیدہ کا انکار ہے۔خداۓ پاک جس روح کو جب چاہیں جہاں چاہیںاور جہاں کی اجازت دے تب وہ اس جگہجا سکتی ہے اکا انکار نہیں
ناشر:دار الاشاعت
البعث والنشور للبيهقي (ص: 154)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتَوَيْهِ، ثنا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا أأَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ [ص:155] سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ الْتَقَيَا فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: «إِنْ لَقِيتَ رَبَّكَ قَبْلِي، فَأَخْبِرْنِي مَاذَا لَقِيتَ مِنْهُ» فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: «أَوَيَلْقَى الْأَحْيَاءُ الْأَمْوَاتَ؟» قَالَ: «نَعَمْ، أَمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَإِنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَهِيَ تَذْهَبُ حَيْثُ شَاءَتْ» قَالَ: فَتُوُفِّيَ أَحَدُهُمَا قَبْلَ صَاحِبِهِ، فَلَقِيَهُ فِي الْمَنَامِ فَكَأَنَّهُ سَأَلَهُ، فَقَالَ الْمَيِّتُ: «تَوَكَّلْ وَأَبْشِرْ، فَلَمْ أَرَ مِثْلَ التَّوَكُّلِ قَطُّ»
الناشر: مركز الخدمات والأبحاث الثقافية، بيروت
شعب الإيمان (2/ 489)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ،، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ سَلْمَانَ وَعَبْدَ اللهِ بْنَ سَلَامٍ الْتَقَيَا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: " إِنْ لنْ لَقِيتَ رَبَّكَ قَبْلِي، فَأَخْبِرْنِي مَاذَا لَقِيتَ مِنْهُ؟ "، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَيَلْقَى الْأَحْيَاءُ الْأَمْوَاتَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، أَمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَإِنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَهِيَ تَذْهَبُ حَيْثُ شَاءَتْ "، قَالَ: فَتُوِفِّيَ أَحَدُهُمَا قَبْلَ صَاحِبِهِ فَلَقِيَهُ الْحَيُّ فِي الْمَنَامِ فَكَأَنَّهُ سَأَلَهُ فَقَالَ الْمَيِّتُ: " تَوَكَّلْ وَأَبْشِرْ فَلَمْ أَرَ مِثْلَ التَّوَكُّلِ قَطُّ "
الناشر: مكتبة الرشد
|