Go back to category : Islamic Question & Answers
  

 
 
Note: if any of the above items represent fashion and style of immoral people, then it is impermissible 
 
 
 


[1]

فتح الباري لابن حجر (10/ 378)

قَالُوا وَيَجُوزُ الْحَفُّ وَالتَّحْمِيرُ وَالنَّقْشُ وَالتَّطْرِيفُ إِذَا كَانَ بِإِذْنِ الزَّوْجِ لِأَنَّهُ مِنَ الزِّينَةِ وَقَدْ أَخْرَجَ الطَّبَرِيُّ مِنْ طَرِيقِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ امْرَأَتِهِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ وَكَانَتْ شَابَّةً يُعْجِبُهَا الْجَمَالَ فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ تَحُفُّ جَبِينَهَا لِزَوْجِهَا فَقَالَتْ أَمِيطِي عَنْكِ الْأَذَى مَا اسْتَطَعْتِ وَقَالَ النَّوَوِيُّ يَجُوزُ التَّزَيُّنُ بِمَا ذُكِرَ إِلَّا الْحَفَ فَإِنَّهُ مِنْ جُمْلَةِ النِّمَاصِ

الفتاوى الهندية (5/ 356)

وَالْمَرْأَةُ إذَا كَانَتْ تُسْمِنُ نَفْسَهَا لِزَوْجِهَا لَا بَأْسَ بِهِ وَيُكْرَهُ لِلرَّجُلِ ذَلِكَ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ.

عوریتیں پردے کی حدود کی رعایت کرتے ہوۓ ہر طریقہ سے زیب و زینت کرسکتی ہیں، لیکن اگر زینت کر کے اپنے جسم کی نمائشکر تی ہوں یا کرواتی پہرتی ہوں تو ناجائز ہے اور اسی عورتوں پر فرشتے لعنت کرتے ہیں-(فتاوی دینیہ،ج5،ص180)  

[2]

حاشية السندي على سنن النسائي (6/ 68)

 إِذا نظر أَي لحسنها ظَاهرا أَو لحسن أخلاقها بَاطِنا ودوام اشتغالها بِطَاعَة الله وَالتَّقوى فِي نَفسهَا بتمكين أحد من نَفسهَا

[3]

مسند أبي داود الطيالسي (4/ 87)

 وَبِإِسْنَادِهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النِّسَاءِ الَّتِي إِذَا نَظَرْتَ إِلَيْهَا سَرَّتْكَ، وَإِذَا أَمَرْتَهَا أَطَاعَتْكَ، وَإِذَا غِبْتَ عَنْهَا حَفِظَتْكَ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا» قَالَ: وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ {الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ} [النساء: 34] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ

صحيح مسلم (2/ 1127) [4]

عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تُحِدُّ امْرَأَةٌ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَلَا تَكْتَحِلُ، وَلَا تَمَسُّ طِيبًا، إِلَّا إِذَا طَهُرَتْ، نُبْذَةً مِنْ قُسْطٍ أَوْ أَظْفَارٍ»

سرمہ زینت محض ہے جو نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے (زیب و زینت کے شرعی احکام،ص99)

[5]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 420)

قُلْت: إنْ كَانَ مِمَّا يَتَزَيَّنُ النِّسَاءُ بِهِ كَمَا هُوَ فِي بَعْضِ الْبِلَادِ فَهُوَ فِيهَا كَثَقْبِ الْقُرْطِ اهـ ط وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيَّةُ عَلَى جَوَازِهِ مَدَنِيٌّ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 420)

قُلْت: وَهَلْ يَجُوزُ الْخِزَامُ فِي الْأَنْفِ، لَمْ أَرَهُ

زیب و زینت عورتوں کے لۓ مباح ہے اور اس میں ہر وہ فعل جو شرعا ممنوع نہ ہو اختیار کر نے کی اجازت ہے، لہاذا عورتوں کا ناک چہدوانا اور اس میں نتہ وغیرہ زیور پہننا جائز ہے کیونکہ یہ امور عادیہ میں سے ہے(زیب و زینت کے شرعی احکام،ص96)

جیسے کان زینت کی جگہ ہے، اسی طرح ناک بہی زینت کی جگہوں میں ہے، کان میں بالیاں پہننے کا ذکر خود حدیث میں ہے، اور ظاہر ہے سوراخ کر کے ہی پہنی گئ ہو گی، اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ناک میں زیور پہننے کے لے سراخ کرنا درست ہے، نہ احادیث میں اس کی ممانعت فرمائی گئ ہے،نہ فقہاء نے اس کو منع کیا ہے (کتاب الفتاوی،ج6،ص83)

[6]

صحيح البخاري (7/ 158)

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «أَمَرَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ، فَرَأَيْتُهُنَّ يَهْوِينَ إِلَى آذَانِهِنَّ وَحُلُوقِهِنَّ

فتح الباري لابن حجر (10/ 331)

وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى جَوَازِ ثَقْبِ أُذُنِ الْمَرْأَةِ لِتَجْعَلَ فِيهَا الْقُرْطَ وَغَيْرَهُ مِمَّا يَجُوزُ لَهُنَّ التَّزَيُّنُ بِهِ وَفِيهِ نَظَرٌ لِأَنَّهُ لَمْ يَتَعَيَّنْ وَضْعُ الْقُرْطِ فِي ثُقْبَةِ الْأُذُنِ بَلْ يَجُوزُ أَنْ يُشْبَكَ فِي الرَّأْسِ بِسَلْسَلَةٍ لَطِيفَةٍ حَتَّى تُحَاذِيَ الْأُذُنَ وَتَنْزِلَ عَنْهَا سَلَّمْنَا لَكِنْ إِنَّمَا يُؤْخَذُ مِنْ تَرْكِ إِنْكَارِهِ عَلَيْهِنَّ وَيَجُوزُ أَنْ تَكُونَ آذَانُهُنَّ ثُقِبَتْ قَبْلَ مَجِيءِ الشَّرْعِ فَيُغْتَفَرُ فِي الدَّوَامِ مَا لَا يُغْتَفَرُ فِي الِابْتِدَاءِ وَنَحْوُهُ قَوْلُ أُمِّ زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنِي وَلَا حُجَّةَ فِيهِ لما ذكرنَا وَقَالَ بن الْقَيِّمِ كَرِهَ الْجُمْهُورُ ثَقْبَ أُذُنِ الصَّبِيِّ وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي الْأُنْثَى قُلْتُ وَجَاءَ الْجَوَازُ فِي الْأُنْثَى عَنْ أَحْمَدَ لِلزِّينَةِ وَالْكَرَاهَةُ لِلصَّبِيِّ قَالَ الْغَزَالِيُّ فِي الْإِحْيَاءِ يَحْرُمُ ثَقْبُ أُذُنِ الْمَرْأَةِ وَيَحْرُمُ الِاسْتِئْجَارُ عَلَيْهِ إِلَّا إِنْ ثَبَتَ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ جِهَةِ الشَّرْعِ قُلْتُ جَاءَ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِيمَا أَخْرَجَهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ سَبْعَةٌ فِي الصَّبِيِّ مِنَ السُّنَّةِ فَذَكَرَ السَّابِعَ مِنْهَا وَثَقْبُ أُذُنِهِ وَهُوَ يَسْتَدِرْكُ عَلَى قَوْلِ بَعْضِ الشَّارِحِينَ لَا مُسْتَنَدَ لِأَصْحَابِنَا فِي قَوْلِهِمْ إِنَّهُ سنة

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 420)

وَلَا بَأْسَ بِثَقْبِ أُذُنِ الْبِنْتِ وَالطِّفْلِ اسْتِحْسَانًا مُلْتَقَطٌ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 420)

 أَنَّ ثَقْبَ الْأُذُنِ لِتَعْلِيقِ الْقُرْطِ، وَهُوَ مِنْ زِينَةِ النِّسَاءِ، فَلَا يَحِلُّ لِلذُّكُورِ، وَاَلَّذِي فِي عَامَّةِ الْكُتُبِ، وَقَدَّمْنَاهُ عَنْ التَّتَارْخَانِيَّة: لَا بَأْسَ بِثَقْبِ أُذُنِ الطِّفْلِ مِنْ الْبَنَاتِ وَزَادَ فِي الْحَاوِي الْقُدْسِيِّ: وَلَا يَجُوزُ ثَقْبُ آذَانِ الْبَنِينَ

عورتوں کو کان چہدانا اور اس میں بالی وغیرہ زیور پہننا جائز ہے کیونکہ زمانہ قدیم سے یہ معمول چلا آرہا ہے (زیب و زینت کے شرعی احکام ،ص94)

[7]

(تكملة فتح الملهم, ج3,ص608)

و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة التي عمت بها البلوي اليوم, فانها تستعمل في كثير من الادوية و العطور و المركبات الاخري, فانها ان اتخذت من العنب و التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها, و ان اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة, و لا يحرم استعمالهاا للتداوي  أو الأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الأسكار  

(احسن الفتاوي,ج2,ص95)      

(عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل اور ان کا حل، ج2،ص461-463)

[8]

عورتوں کے لۓ چہرے کے بال نوچ کر صاف کرنا یا ان کی حیثیت تبدیل کرنا جائز ہے (فتاوی براۓ خواتین،ص526)

عورت کے لۓ چہرے کے بال صاف کرنا جائز ہے، اور اگر ڈاڑہی یا مونچہ کے بال نکل آئیں تو ان کا ازالہ مستحب ہے(احسن الفتاوی،ج8،ص75)

ابرو بہت زیادہ پہلے ہوۓ ہوں تو ان کو درست کر کے عام حالت کے مطابقکرنا جائز ہے۔ غرضیکہ تزیین مستحب ہے اور ازالہ عیب کا استحباب تسبتہ زیادہ مؤکد ہے اور تلبیس و تغیر خلق ناجائز ہے (احسن الفتاوی،ج8،ص76)

[9]

الفتاوى الهندية (1/ 13)

وَإِنْ كَانَ عَلَى ظَاهِرِ بَدَنِهِ جِلْدُ سَمَكٍ أَوْ خُبْزٌ مَمْضُوغٌ قَدْ جَفَّ فَاغْتَسَلَ وَلَمْ يَصِلْ الْمَاءُ إلَى مَا تَحْتَهُ لَا يَجُوزُ وَلَوْ كَانَ مَكَانَهُ خُرْءُ ذُبَابٍ أَوْ بُرْغُوثٍ جَازَ.

الفتاوى الهندية (1/ 4)

فِي فَتَاوَى مَا وَرَاءَ النَّهْرِ إنْ بَقِيَ مِنْ مَوْضِعِ الْوُضُوءِ قَدْرُ رَأْسِ إبْرَةٍ أَوْ لَزِقَ بِأَصْلِ ظُفْرِهِ طِينٌ يَابِسٌ أَوْ رَطْبٌ لَمْ يَجُزْ وَإِنْ تَلَطَّخَ يَدُهُ بِخَمِيرٍ أَوْ حِنَّاءٍ جَازَ

عورتوں کے مہندی لگانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ احادیث سے اس کا مستحب ہو نا معلوم ہو تا ہے، ناخون پر جو نیل پالش لگاۓ جاتے ہیں، وہ وضو کا پانی پہونچنے میں رکاوٹ ہے، اور ظاہر ہے کہ اعضاء وضو میں سے کسی حصہ پر پانی نہ پہونچ پاۓ تو وضو درست نہیں ہو گا، اور بغیر وضو کے ادا نہیں کی جا سکتی، اس لۓ جن خواتین کے ساتہ ایسی حالت نہ ہو کہ جن میں نماز معاف ہو جاتی ہے ان کے لۓ نیل پالش درست نہیں –(کتاب الفتاوی،ج6،ص81)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 62)

"و" الثالث "زوال ما يمنع وصول الماء إلى الجسد" لحرمة الحائل "كشمع وشحم" قيد به لأن بقاء دسومة الزيت ونحوه لا يمنع لعدم الحائل

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 62)

قوله: "كشمع وشحم" وعجين وطين وما ذكره بعضهم من عدم منع الطين والعجين محمول على القليل الرطب ويمنع جلد السمك والخبز الممضوغ الجاف والدرن اليابس في الأنف

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 208)

وَلَا بَأْسَ لِلنِّسَاءِ بِخِضَابِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ مَا لَمْ يَكُنْ خِضَابٌ فِيهِ تَمَاثِيلُ وَيُكْرَهُ لِلرِّجَالِ وَالصِّبْيَانِ لِأَنَّ ذَلِكَ تَزَيُّنٌ وَهُوَ مُبَاحٌ لِلنِّسَاءِ دُونَ الرِّجَالِ

وضو میں جن اعضاء کا دہونا ضروری ہے اگر ان پر ایسی چیز لگی ہوئی ہو جو پانی کو جسم کی کہال تک پہنچنے سے روکے تو وضو نہیں ہو تا یہ حکم غسل کا ہے نیل پالش لگی ہوئی ہو تو پانی ناخن تک نہیں پہنچ سکتا اس لۓ نیل پالش لگی ہو نے کی صورت میں وضو اور غسل نہیں ہو تا (فتاوی براۓ خواتین،ص527)

نیل پالش کا استعمال جب کہ اس میں نجس اشیاء کی ملاوٹ نہ ہو اگر چہ مباح ہے لیکن اس کا استعمال اداء فرض سے مانع ہے (زیب وزینت کے شرعی احکام،117)

[10]

اگر یہ لپ اسٹک ایسی ہو کہ اس کے ہوتے ہوۓ بہی وضوء اور فرض غسل میں جلد تک پانی اچہی طرح پہنچ جا تا ہو تو اس کا استعمال جائز ہے-۔ (عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل اور ان کا حل، ج2،ص391)

اگر لپ اسٹک میں کوئی حرام جزو نہ ہو اور وضوء کا پانی جسم تک پہونچنے میں رکاوٹ نہ بنتا ہو، تو اس کا استعمال جائز نہیں، اگر کوئی حرام جزو اس کی بناوٹ میں شامل ہو اس کا استعمال جائز نہیں، اگر حرام جزو تو شامل نہ ہو، لیکن ہونٹ پر اسی تہ جم جاتی ہو کہ وضوء کا پانی نہ پہونچ سکے تو جن عورتوں پر نماز واجب ہے، ان کے لے لپ اسٹک لگانا جائز نہیں،جن عورتیں ایسی حالت میں ہوں کہ فی الحال ان پر نماز واجب نہیں اور نماز واجب ہونے سے پہلے لپ اسٹک صاف ہو جانے کی امید ہو ان کے لے لگا نے کی گنجائش ہے-(کتاب الفتاوی،ج6،ص83)

لپ استک -  اگر چہ اسباب زینت میں سے  ہے، لیکن دیندار شریف گہرانوں میں اسے نہایت معیوب سمجہا جا تا ہے(زیب وزینت کے شرعی احکام،106)

اصلی خوبصورتی کو فنا کرکے مصنوعی خوبصورتی کو اس کی جگہ پیدا کرنا جو کہ عقل و دانش اور ذوق سلیم کے بہی خلاف ہے، اگر اس میں کوئی ناپاک چیز ہو جیسے عامتا اسپرٹ ہوتی ہے، تو ہونٹوں اور چہرے کی نا پاکی کا بہی حکم ہو گا (فتاوی محمودیہ،ج28، ص54)

فہم دین عقل سلیم اور طبع مستقیم کے خلاف ہےبے دینوں کا شعار ہے (احسن الفتاوی،ج8،ص68)

[11]

عورت کو چاہیۓ کہ وہ اپنے شوہر کے سامنی اپنی صورت بگاڑ کے اور میلی کچلی نہ رہا کرے بلکہ صاف ستہری اور بناؤ سنگہار سےرہا کرے۔ اس مقصد کے لیلیۓ شرعی حدود میں رہ کر عورت کیلیۓ میک اپ کرنا، پاوڈر، کریم یا اس طرح میک اپ کی دوسری چیزوں کا استعمال بلاشبہ جائز ہے۔ (عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل اور ان کا حل، ج2،ص389)

ابٹن، کریم، لوشن و غیرہ استعمال کرنا – ان اشیاء کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں، البتہ اس بات کا لہاظ کیا جاۓ کہ حرام و نجس چیزوں کی ملاوٹ سے پاک ہوں ورنہ ان کا استعمال نجاست کی وجہ سے درست نہ ہو گا- (زیب و زینت کے احکام،ص108)

مردوں کے لۓ استرا وغیرہ سے صاف کرنا اور عورتوں کے لۓ اکہاڑنا مستحب ہے- پاوؤڈر اور کریم کا استعمال بہی جائز ہے- (احسن الفتاوی،ج8،ص78)

[12]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 373)

(قَوْلُهُ سَوَاءٌ كَانَ شَعْرَهَا أَوْ شَعْرَ غَيْرِهَا) لِمَا فِيهِ مِنْ التَّزْوِيرِ كَمَا يَظْهَرُ مِمَّا يَأْتِي وَفِي شَعْرِ غَيْرِهَا انْتِفَاعٌ بِجُزْءِ الْآدَمِيِّ أَيْضًا: لَكِنْ فِي التَّتَارْخَانِيَّة، وَإِذَا وَصَلَّتْ الْمَرْأَةُ شَعْرَ غَيْرِهَا بِشَعْرِهَا فَهُوَ مَكْرُوهٌ، وَإِنَّمَا الرُّخْصَةُ فِي غَيْرِ شَعْرِ بَنِي آدَمَ تَتَّخِذُهُ الْمَرْأَةُ لِتَزِيدَ فِي قُرُونِهَا، وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَبِي يُوسُفَ، وَفِي الْخَانِيَّةِ وَلَا بَأْسَ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَجْعَلَ فِي قُرُونِهَا وَذَوَائِبهَا شَيْئًا مِنْ الْوَبَرِ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 373)

 وَفِي الْمُغْرِبِ.

النَّمْصُ: نَتْفُ الشَّعْرِ وَمِنْهُ الْمِنْمَاصُ الْمِنْقَاشُ اهـ وَلَعَلَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى مَا إذَا فَعَلَتْهُ لِتَتَزَيَّنَ لِلْأَجَانِبِ، وَإِلَّا فَلَوْ كَانَ فِي وَجْهِهَا شَعْرٌ يَنْفِرُ زَوْجُهَا عَنْهَا بِسَبَبِهِ، فَفِي تَحْرِيمِ إزَالَتِهِ بُعْدٌ، لِأَنَّ الزِّينَةَ لِلنِّسَاءِ مَطْلُوبَةٌ لِلتَّحْسِينِ، إلَّا أَنْ يُحْمَلَ عَلَى مَا لَا ضَرُورَةَ إلَيْهِ لِمَا فِي نَتْفِهِ بِالْمِنْمَاصِ مِنْ الْإِيذَاءِ. وَفِي تَبْيِينِ الْمَحَارِمِ إزَالَةُ الشَّعْرِ مِنْ الْوَجْهِ حَرَامٌ إلَّا إذَا نَبَتَ لِلْمَرْأَةِ لِحْيَةٌ أَوْ شَوَارِبُ فَلَا تَحْرُمُ إزَالَتُهُ بَلْ تُسْتَحَبُّ اهـ، وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُضْمَرَاتِ: وَلَا بَأْسَ بِأَخْذِ الْحَاجِبَيْنِ وَشَعْرِ وَجْهِهِ مَا لَمْ يُشْبِهْ الْمُخَنَّثَ اهـ وَمِثْلُهُ فِي الْمُجْتَبَى تَأَمَّلْ

تحفة الفقهاء (3/ 344)

وَلَا بَأْس بِأَن تصل شعرهَا بِشعر الْبَهِيمَة لِأَن ذَلِك من بَاب الزِّينَة وَهِي غير مَمْنُوعَة عَنْهَا للزَّوْج

الآثار لأبي يوسف (ص: 236)

قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ، وَالْمُوتَصِلَةَ، وَالْوَاشِمَةَ، وَالْمُوتَشِمَةَ، وَالْوَاشِرَةَ، وَالْمُوتَشِرَةَ، وَالْوَاصِمَةَ، وَالْمُوتَصِمَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا، وَمُطْعِمَهُ، وَشَاهِدَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَالْمُحَلِّلَ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ»

مختصر صحيح الإمام البخاري (4/ 54)

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - قالَ:

"لَعَنَ اللهُ الوَاصِلَةَ والمُسْتَوْصِلَةَ، والوَاشِمَةَ والمُسْتَوشِمَةَ"

مصنف ابن أبي شيبة (5/ 202)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنِ الْهَيْثَمِ، عَنْ أُمِّ ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لَا بَأْسَ بِالْوِصَالِ إِذَا كَانَ صُوفًا

[13]

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 125)

وَيُكْرَهُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصِلَ شَعْرَ غَيْرِهَا مِنْ بَنِي آدَمَ بِشَعْرِهَا لِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ» وَلِأَنَّ الْآدَمِيَّ بِجَمِيعِ أَجْزَائِهِ مُكَرَّمٌ وَالِانْتِفَاعُ بِالْجُزْءِ الْمُنْفَصِلِ مِنْهُ إهَانَةٌ لَهُ وَلِهَذَا كُرِهَ بَيْعُهُ وَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ مِنْ شَعْرِ الْبَهِيمَةِ وَصُوفِهَا لِأَنَّهُ

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (5/ 377)

 قال عليه السلام: «لعن الله الواصلة والمستوصلة» هي التي تصل شعر امرأة بشعر امرأة أخرى، وإنما جاءت الرخصة في شعر غير بني آدم، تتخذه المرأة،

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 59)

وَإِنَّمَا يُرَخَّصُ فِيمَا يُتَّخَذُ مِنْ الْوَبَرِ فَيَزِيدُ فِي قُرُونِ النِّسَاءِ وَذَوَائِبِهِنَّ وَعَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِهِ اسْتِدْلَالًا بِمَا رُوِيَ «أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - حِينَ حَلَقَ رَأْسَهُ قَسَمَ شَعْرَهُ بَيْنَ أَصْحَابِهِ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ - وَكَانُوا يَتَبَرَّكُونَ بِهِ» وَلَوْ لَمْ يَجُزْ الِانْتِفَاعُ بِهِ لَمَا فَعَلَ لَكِنَّ فِيهِ مَا فِيهِ. تَتَبَّعْ.

اگر یہ بال انسان کے ہوں تو ان کا لگانا گناہ کبیرہ ہے اور اس پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے جانور کے ہوں تو جائز ہے-(احسن الفتاوی،ج8،ص74)

[14]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 308)

وَالْخِنْزِيرُ لَا يُسْتَعْمَلُ وَهُوَ بَاقٍ عَلَى نَجَاسَتِهِ لِأَنَّ كُلَّ أَجْزَائِهِ نَجِسَةٌ

[15]

تحفة الملوك (ص: 227)

وَلَا بَأْس بخضاب الرَّأْس واللحية بِالْحِنَّاءِ والوسمة للرِّجَال وَالنِّسَاء

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 756)

(اخْتَضَبَ لِأَجْلِ التَّزَيُّنِ لِلنِّسَاءِ وَالْجَوَارِي جَازَ) فِي الْأَصَحِّ وَيُكْرَهُ بِالسَّوَادِ وَقِيلَ لَا وَمَرَّ فِي الْخَطَرِ

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 208)

وَلَا بَأْسَ بِخِضَابِ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ بِالْحِنَّاءِ وَالْوَشْمَةِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ لِأَنَّ ذَلِكَ سَبَبٌ لِزِيَادَةِ الرَّغْبَةِ وَالْمَحَبَّةِ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ.

الفتاوى الهندية (5/ 359)

 اتَّفَقَ الْمَشَايِخُ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ الْخِضَابَ فِي حَقِّ الرِّجَالِ بِالْحُمْرَةِ سُنَّةٌ وَأَنَّهُ مِنْ سِيمَاءِ الْمُسْلِمِينَ وَعَلَامَاتِهِمْ وَأَمَّا الْخِضَابُ بِالسَّوَادِ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ الْغُزَاةِ لِيَكُونَ أَهْيَبَ فِي عَيْنِ الْعَدُوِّ فَهُوَ مَحْمُودٌ مِنْهُ، اتَّفَقَ عَلَيْهِ الْمَشَايِخُ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ لِيُزَيِّنَ نَفْسَهُ لِلنِّسَاءِ وَلِيُحَبِّبَ نَفْسَهُ إلَيْهِنَّ فَذَلِكَ مَكْرُوهٌ وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْمَشَايِخِ وَبَعْضُهُمْ جَوَّزَ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ كَرَاهَةٍ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ قَالَ كَمَا يُعْجِبُنِي أَنْ تَتَزَيَّنَ لِي يُعْجِبُهَا أَنْ أَتَزَيَّنَ لَهَا كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ.

وَعَنْ الْإِمَامِ أَنَّ الْخِضَابَ حَسَنٌ لَكِنْ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتْمِ وَالْوَسْمَةِ وَأَرَادَ بِهِ اللِّحْيَةَ وَشَعْرَ الرَّأْسِ وَالْخِضَابُ فِي غَيْرِ حَالِ الْحَرْبِ لَا بَأْسَ بِهِ فِي الْأَصَحِّ كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ.

وَلَا بَأْسَ بِغَالِيَةِ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ كَذَا فِي الْفَتَاوَى الْعَتَّابِيَّةِ.

خضاب سرخ بالاتفاق جائز بلکہ مستحب ہے، اور سیاہ خضاب جہاد میں ہیبت دشمن کیلۓ بہی جائز ہے اور محض زینت کے واسطے مختلف فیہ ہے، عام مشائخ کا قول کراہت ہے اور اما ابو یوسف نے جائز رکہا ہے، لیکن احتیاج اور راجح نہ کرنا ہے، (امداد الفتاوی،ج4،ص213)

[16]

الفتاوى الهندية (5/ 358)

وَوَصْلُ الشَّعْرِ بِشَعْرِ الْآدَمِيِّ حَرَامٌ سَوَاءٌ كَانَ شَعْرَهَا أَوْ شَعْرَ غَيْرَهَا كَذَا فِي الِاخْتِيَارِ شَرْحِ الْمُخْتَارِ.

وَلَا بَأْسَ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَجْعَلَ فِي قُرُونِهَا وَذَوَائِبهَا شَيْئًا مِنْ الْوَبَرِ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ

عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل اور ان کا حل،ج2،ص420)

مندرجہ بالہ تشریحات سے یہ بات واضح ہو گئ کہ وگ کا استعمال ممنوع ہے)

[17]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 308)

وَالْخِنْزِيرُ لَا يُسْتَعْمَلُ وَهُوَ بَاقٍ عَلَى نَجَاسَتِهِ لِأَنَّ كُلَّ أَجْزَائِهِ نَجِسَةٌ

[18]

اگر نظر کی کمزوری کے باعث استعمال کۓ جائیں تو اس میں کوئی حرج نہی زیب وزینت میں ان کا استعمال ہمارے عرف میں عام نہیں کہ اس کی اجازت دی جاۓ(زیب و زینت کے شرعی احکام،ص101)

[19]

سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 144)

عن ابنِ عُمَرَ، قال: قال رسولُ الله - صلَّى الله عليه وسلم -:، مَن تَشَبَّه بقومٍ فهو منهم"

صحيح البخاري (7/ 163)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ القَزَعِ»

الفتاوى الهندية (5/ 357)

يُكْرَهُ الْقَزَعُ وَهُوَ أَنْ يَحْلِقَ الْبَعْضَ وَيَتْرُكَ الْبَعْضَ قَطْعًا مِقْدَارَ ثَلَاثَةِ أَصَابِعَ كَذَا فِي الْغَرَائِبِ.

وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - يُكْرَهُ أَنْ يَحْلِقَ قَفَاهُ إلَّا عِنْدَ الْحِجَامَةِ كَذَا فِي الْيَنَابِيعِ

انگلش بال کٹوانے سے سر کے تمام بال برابر نہیں رہتے بلکہ چہوٹے بڑے رہتے ہیں کہ بعض حصہ کے بال بڑے اور بعض حصہ کے بال بالکل چہوٹے ہو جاتے ہیں ایسے بالوں کو قزع کہتے ہیں، جس سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے، نیز یہ فاسق و فاجر لوگوں کے ساتہ متشابہت اختیار کر نا ہے اور اس سے بہی حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے، لہذا ایسی فیشن والے بال رکہنے سے بچنا چاہے –(فتاوی دینہ،ح5،ص96)

قزع یعنی سرکے بعض حصہ کے بال منڈانا اور بعض کے چہورنا ، یا بعض زیادہ تراشنا اور بعض کم (احسن الفتاوی،ج8،ص82).

[20]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 373)

وَفِي تَبْيِينِ الْمَحَارِمِ إزَالَةُ الشَّعْرِ مِنْ الْوَجْهِ حَرَامٌ إلَّا إذَا نَبَتَ لِلْمَرْأَةِ لِحْيَةٌ أَوْ شَوَارِبُ فَلَا تَحْرُمُ إزَالَتُهُ بَلْ تُسْتَحَبُّ اهـ، وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُضْمَرَاتِ: وَلَا بَأْسَ بِأَخْذِ الْحَاجِبَيْنِ وَشَعْرِ وَجْهِهِ مَا لَمْ يُشْبِهْ الْمُخَنَّثَ اهـ وَمِثْلُهُ فِي الْمُجْتَبَى تَأَمَّلْ

[21]

و لكن و للأسف الشديد قد ظهرت في هذا العصر بدعة غريبة, و هي إطالة اأظفار حتي تفخحش, و هي من عادات الغرب, و لا يجوز فعلها من وجهين:

الأول : أن فيها تشبه بغير المسلمات

الثاني: أن إطالة الأظفار فيه مخالفة للفطرة, و للسنة في توقيت تقليمها (أحكام الزينة للنساء, ص97)

Question Summary:
Is it permissible to use ‘Halaal’ nail polish?

Question Detail:

 
View regarding the so called halal nail polish.  Is it permissible to use even though it maybe waterproof? Nabi saw haduth - he who imitates a nation is one of them .. In this regard would nail polish be permissible to use. 
Nowadays trend of wearing a lot of make up, what advise can I give to my fellow sisters about this issue ?

Answer :

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.
We are not aware of any halaal nail polish. A test was conducted on some nail polish which claimed to be water permeable. However the results proved otherwise.
Wudhu is the prerequisite for the validity of salah. One should exercise extreme precaution in ensuring the wudhu is valid.  Shari`ah permits a woman to adorn herself[1] and in fact encourages her to do so for her husband.  See the following;
{لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ وَاتَّقِينَ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا} [الأحزاب: 55]
Translation:
There is no sin on them (the wives of the Prophet and all Muslim women) for (speaking socially to and being seen by) their fathers, sons, their brothers, their sons brothers, the sons of their sisters, their fellow women and their slave women. (However) they should fear Allah (and still cover the necessary parts of their bodies). Indeed Allah is Witness over everything.
سنن النسائي (6/ 68)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ»
Translation:
Abu Hurairah (radiyallahu anhu) narrates that the Prophet (sallalahu alayhi wa sallam) was asked: 'Which woman is best?' He said: 'The one who makes him happy when he looks at her[2], obeys him when he commands her, and she does not go against his wishes with regard to herself nor her wealth.'"[3]
 
However in doing so, it must be within the limits of the Shari`ah. Hereunder is a list various items used for beautifications, with their respective rulings.
 
Permissible items

  • Hena
  • Eyeliner
  • Surma[4]
  • Nose piercing[5]  and earrings[6] (When performing wudhu, ensure water reaches the pierced area)
  • Note: It is impermissible to pierce any other part of the body besides the ears and the nose.

  • Fragrance only for the husband (when the alcohol is not made from grapes or dates[7])
  • Removing facial hair such as beard/moustache (only for women[8])
  • Nail polish[9] (should be removed for wudhu)
  • Fake nails (should be removed for wudhu)
  • Lipstick[10] (on condition there are no impurities in it)
  • Creams and powders[11]  (on condition there are no impurities in it)
  • Fake eyelashes[12] (permissible as long as they are not made from human or pig hair)
  • Eyeshadow (on condition there are no impurities in it)
  • Mascara (on condition there are no impurities in it)
  • Hair extensions[13] (permissible as long as they are not made from human or pig hair[14])
  • Hair dye[15] (permissible besides black)
  • Wigs[16] (permissible as long as they are not made from human or pig hair[17] and not worn for deception)
  • Coloured contact lenses[18] (permissible for beatification, not for deception).   
  • Note: if any of the above items represent fashion and style of immoral people, then it is impermissible 
    Impermissible items

  • Cutting hair in layers[19]
  • Shaping eyebrows[20]   
  • Disliked items

  • Long nails[21] (disliked, they are against fitrah)
  • Following trends and fashion (disliked)
  •  
    And Allah Ta’āla Knows Best
    Hafizurrahman Fatehmahomed
    Student Darul Iftaa
    Netherlands
    Checked and Approved by,
    Mufti Ebrahim Desai.

     
     
     
     

    Overview

    Item

    Permissible

    Impermissible

    Permissible on condition

    Disliked

    Hena

    X

     

     

     

    Eyeliner

    X

     

     

     

    Surma

    X

     

     

     

    Nose piercing

    X

     

     

     

    Earrings

    X

     

     

     

    Fragrances/ aftershave which contain alcohol besides dates and grapes 

    X

     

     

     

    Removing facial hair (such as beard/moustache)

    X

     

     

     

    Cutting hair in layers

     

    X

     

     

    Shaping eyebrows

     

    X

     

     

    Nail polish

     

     

    Not mixed with any impurities

     

    Fake nails

     

     

    Must be removed for wudhu

     

    Lipstick

     

     

    Not mixed with any impurities

     

    Creams and powders

     

     

    Not mixed with any impurities

     

    Fake eyelashes

     

     

    Not made from human or pig hair

     

    Hair extensions

     

     

    Not made from human or pig hair

     

    Wigs

     

     

    Not made from human or pig hair

     

    Hair dye

     

     

    Any colour besides black

     

    Eyeshadow

     

     

    Not mixed with any impurities

     

    Mascara

     

     

    Not mixed with any impurities

     

    Coloured contact lenses

     

     

    Not worn for deception

     

    Mascara

     

     

    Not mixed with any impurities

     

    Long nails

     

     

     

    X

    Following fashion and trends

     

     

     

    X

    Main Categories  More Questions  


    Online Tutor Available

     
    Masnoon Duaein
    Islamic Question & Answers
    Aaj ki baat
    Mazameen
    Asma ul Husna
    Tilawat e Quran
    Qasas-ul-Anbiya
    Multimedia
    Essential Duas For A Muslim
    Khawateen Kay Masaeel

    © 2024 Ya-mujeeb.com. All rights reserved
    search-sharai-masaeel