[1] فتاوی محمودیۃ (180/3)
سوال: سالگرہ اور میلاد شریف
جواب: سالگرہ (پیدائش سے سال بہر پورا ہونے پر تقریب اور خوشی منانا) یہ اسلامی تعلیم نہیں ہے یہ غیروں کا طریقہ ہے اس سے پرہیز چاہئے
کتاب الفتاوی (405/1)
سوال: نام رکھائی کے لڈو یا کیک تقسیم کرنا اور سالگرہ منانا کیا اسلام میں جائز ہےَ
جواب: عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم خیر القرون اور سلف صالحین کے زمانہ میں نام رکھائی اور سالگرہ وغیرہ کی مسرفانہ تقریبات نہیں ہوا کرتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی صاحب زادیوں نوا سے اور نواسیوں کے نام رکھے ہیں لیکن کبھی بھی اس طرح کا اہتمام نہیں کیا گیا، اسی طرح یوم ولادت میں دعوت وغیرہ کا اہتمام جسے آجکل سالگرہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے ثابت نہیں، یہ مغربی اقوام سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے چوں کہ اسے دینی عمل سمجھ کر انجام نہیں دیا جاتا اس لۓ اسے بدعت تو نہیں ک سکتے کیوں کہ بدعت کا تعلق امر دین سے ہوتا ہے لیکن غیر مسلموں سے مماثلت اور غیر اسلامی تہذیب سے تاثر اور مشابہت کی وجہ سے کراہت سے بھی خالی نہیں
فتاوی حقانیۃ (75/2)
سوال: سالگرہ کی شرعی حیثیت؟
جواب: اسلام میں اس قسم کے رسم ورواج کا کوئ ثبوت نہیں ہے خیر القرون میں کسی صحابی تابعی تبع تابعین یا ائمۃ اربعہ میں کسی سے مروجہ طریقہ پر سالگرہ منانا ثابت نہیں یہ رسم بد انگریزوں کی ایجاد کردہ ہے ان کی دیکھا دیکھی کچھ مسلمانوں میں بھی یہ رسم سرایت کرچکی ہے- اس لۓ اس رسم کو ضروری سمجھنا ایسی دعوت میں شرت کرنا اور تحفے تحائف دینا فضول ہے شریعت مقدسہ میں اس کی قطعا اجازت نہیں
کفایۃ المفتی (85/9
سوال: سالگرہ منانے کی رسم؟
جواب: سالگرہ منانا کوئی شرعی تقریب نہیں ہے ایک حساب اور تاریخ کی یادگار ہے اس کے لۓ یہ تمام فضولیات محض عبث اور التزام ما لا یلزم میں داخل ہیں
احسن الفتاوی (1548)
سوال: بچوں کی سالگرہ منانے اور اس موقع پر قرآن خوانی کرانے کا شریعت میں کوئ ثبوت ہے یا نہیں؟
جواب: سالگرہ منانا ایک قبیح رسم ہے،اس کا ترک واجب ہے،اصل سالگیرہ تو یہ ہے کے ایسے موقعے پر اپنی زندگی کا احتساب کیا جائے،اپنے اعمال کے بارہ میں سوچا جاۓ کہ جنت کی طرف لے جار ہے ہیں یا جہنم کی کی طرف
مختصر صحيح الإمام البخاري (2/ 195)
بابُ قَبُولِ الهديَّةِ مِن المُشرِكينَ
- وقال أبو هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم -:
"هاجَرَ ابراهيمُ عليه السلام بسارَةَ، فدَخَلَ قريةً فيها مَلِكٌ أو جبارٌ، فقال: أعطوها آجَرَ".
- وأُهديت للنبي - صلى الله عليه وسلم - شاةٌ فيها سُمٌّ.
- وقال أبو حُميدٍ: أهدى مَلِكُ أيْلَةَ للنبيِّ - صلى الله عليه وسلم - بغْلَةً بيضاءَ وكَساهُ بُرداً، وكَتَبَ لهُ بِبَحْرِهِم
1181 - عن أنسٍ رضيَ اللهْ عنه قالَ: أُهْدِيَ (410 - وفي روايةٍ: إنَّ أُكَيْدِرَ دُوْمَة (16) أهدَى) للنبيِّ - صلى الله عليه وسلم - جُبَّة سُنْدُسٍ، وكان ينهى عنِ الحريرِ، فعَجِبَ الناسُ منها،
Rules regarding accepting gifts from non-Muslims
1.The gifted must be a halal item for a muslim. It should not be something which is haraam, Ex. Haraam food or the item is the result of an interest based transaction.
الفتاوى الهندية - ط. دار الفكر (5/ 342)
الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية ولا يأكل الطعام
2. One does not fear that the non-Muslim will use the gift as leverage.
الفتاوى الهندية - ط. دار الفكر (5/ 348)
ومن المشايخ من وفق من وجه آخر فقال لم يقبل من شخص علم أنه لو قبل منه لا يقل صلابته وعزته في حقه ويلين له بسبب قبول الهدية وقبل من شخص علم أنه لا يقل صلابته وعزته في حقه ولا يلين بسبب قبول الهدية كذا في المحيط لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية إذا كان لرجل أو لامرأة والدان كافران عليه نفقتهما وبرهما وخدمتهما وزيارتهما فإن خاف أن يجلباه إلى الكفر إن زارهما جاز أن لا يزورهما كذا في الخلاصة
3. He does not accept it on the days wherein the gift is given due to a celebration for the non-Muslim.
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 759)
(والاعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام (وإن قصد تعظيمه) كما
يعظمه المشركون (يكفر) قال أبو حفص الكبير: لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم أهدى لمشرك يوم النيروز بيضة يريد تعظيم اليوم فقد كفر وحبط عمله اهـ.
ولو أهدى لمسلم ولم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لا يكفر، وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيا للشبهة، ولو شرى فيه ما لم يشتره قبل إن أراد تعظيمه كفر، وإن أراد الاكل كالشرب والتنعيم لا يكفر.
Fatawa Mahmoodiyyah Vol.25/Pg.488