[1]
(368/27) فتاوی محمودیہ
جب بیوی کی حالت ایسی ہو کہ اس کو حالت حمل میں شدید تکالیف کا سامنا ہوتا ہے تو صحت ہونے اور قوت آنے تک بیوی کی رضامندی سے عزل کی اجازت ہے۔
(347/8) احسن الفتاوی
عزل درست ہے اگر عورت اتنی کمزور ہے کہ بار حمل کا تحمل نہیں کرسکتی۔
(228/6) کتاب الفتاوی
ماں بچوں کی پیدائش ماں کی جسمانی صحت دماغی صحت یا اس کی زندگی کیلئے خطرناک ہو تو عزل درست ہے۔
()جواہر الفقہ
ختلف أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في العزل فعلي رضي الله عنه يكره وابن عباس وابن عمر وابن مسعود رضي الله عنهم كانوا لا يكرهون ذلك وهو المذهب عند أصحابنا إلا أن علمائنا قالوا في المرأة المنكوحة يشترط رضاها بالعزل وفي الأمة المنكوحة يشترط رضا المولى عند أبي حنيفة رحمه الله وعندهما يشترط رضا الأمة وفي الأمة المملوكة لا يشترط رضاها بلا خلاف (ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة "نهر" بحثا (بإذنها) لكن في "الخانية" أنه يباح في زماننا لفساده قال كمال فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها
الدر المختار
At Tatarkhaniyyah (202/18 – Maktabah Zakariyyah):
رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لا يسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى
Fatawa Hindiyyah (354/5 – Darul Fikr):
لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر كقولهم مثلك لا يبخل ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد أو في دار الحرب فخاف على الولد أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل
(Raddul Muhtar (176/3) Darul Fikr):
وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها
(Jami’ur Rumooz 294/1):
وقدمنا هناك عن النهر بحثا أن لها سد فم رحمها كما تفعله النساء مخالفا لما بحثه في البحر من أنه يحرم بغير إذن الزوج لكن يخالف ما في الكبرى إلا أن يحمل على عدم خوف الفساد تأمل
Raddul Muhtar (374/6 – Darul Fikr):
مادہ حیات (منی) کے اپنے مستقر (رحم) تک پہنچنے سے قبل بصورت عزل وغیرہ فرج میں ڈالنا میاں بیوی کی آپس کی رضامندی سے جائز ہے- اگر چہ ضرورت شدیدہ نہ بھی ہو- فساد زمانہ کی وجہ سے متاخرین علماء نے بیوی کی اجازت کو بھی عزل کے جواز کے لۓ شرط قرار نہیں دیا- بلکہ مرد کی صوابدید پردے چھوڑا ہے- وہ اگر ضرورت محسوس کرے تو عزل کرسکتا ہے- قال في الدر المختار (ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة از بختار (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال فليعتبر عذرا بڑکے لفافے کے استعمال سے مادہ تولید اگر رحم میں جانے ہی نہیں پاتا اس کا استعمال زوجین کی رضامندی سے حسب ضرورت جائز ہوگا لیکن اسے قانونی شکل دے کر رائج کرنا جائز نہیں- ہر شخص اپنے انفرادی حالات کو دیکھ کر عزل کرسکتا ہے- لیکن مادہ تولید کے رحم تک پہنچنے کے بعد پھر اس کا اخراج یا اسقاط کرنا بغیر ضرورت شدیدہ کے جائز نہیں- اگر ضرورت شدیدہ پیش ہوجاۓ- مثلا حمل ٹھہرنے سے دودھ خشک ہوجاتا ہے اور بچے کے باپ میں یا دودھ پلانے والے میں استطاعت نہیں- بچے کی ہلاکت کا اندیشہ ہے وغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں نفخ روح سے قبل اس کا اسقاط صحیح ہے ورنہ نہیں
فتاوی مفتی محمود (177/10) محمد ریاض درانی
ضبط تولید کا شرعی حکم کیاہے
اگر جرورت محسوس ہو تو بحالت عذر جب تک عذر باقی رہے چند دن کیلئے ضبط ضمل کی تدبیر و معالھہ کرسکتے ہیں لیکن بدون شرعی عذر کہ بچہ دانی نکال کر دائما اولاد سے محروم ہونے کی کوشش کفران نعمت ہے مگر ہمیشہ کیلئے ضبط ولادت کسی شدید اور انتہائے مجبوری ہی میں جائز ہوسکتی ہے۔
(182/10) فتاوی رحیمیہ