Question Summary: Alcohol content in cooking spray Question Detail:
I have a question regarding the alcohol content in cooking spray. Fry light 1 cal Olive Oil cooking spray contains alcohol in it's ingredients and although the alcohol content is minimal I have doubts whether it is permissible or not. On the companies website, this is stated: The ingredients contain alcohol - why? A small amount of alcohol is used to help preserve the product. The alcohol is removed when heated (by evaporation) during cooking. Because they state that alcohol is removed while cooking, and because it is such an insigifincant amount, does it make it permissible to use this cooking spray?
Answer :
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. We contacted the company and this was their response: “Thank you for your email regarding the alcohol in Frylight. The alcohol used in Frylight is 5% beet alcohol (fermented from sugar beets) when this happens this is called Ethanol A small amount of alcohol is used to help preserve the product. The alcohol is completely removed when heated (by evaporation) during cooking.” In principle, if the alcohol is derived from things other than grapes and dates, then it is not impure. The alcohol used in the cooking spray is ethanol and thus permitted. [1] And Allah Ta’āla Knows Best Safwaan Ibn Ml Ahmed Ibn Ibrahim Student Darul Iftaa Limbe, Malawi Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai. ______________________________ تكملة فتح الملهم (439/4) دار القلم وبهذا يتبين حكم الكحول المسكرة ... التي عمت بها اليوم، فانها تستعمل في كثير من الأدوية والعطور والمركبات الأخرى، فانها ان اتخذت من العنب او التمر فلا سبيل الى حلتها او طهارتها، وان اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل على مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالى، ولا يحرم استعمالها للتداوى لأغراض مباحة اخرى ما لم تبلغ حد الاسكار، لأنها انما تستعمل مركبة مع المواد الأخرى، ولا يحكم بنجاستها أخذا بقول أبي حنيفة رحمه الله. فالحاصل أن هذه "الكحول" لو لم تكن مصنوعة من العنب والتمر فبيعها للأغراض الكيمياوية جائز بالإتفاق بين أبي حنيفة وصاحبيه وإن كانت مصنوعة من التمر أو المطبوخ من عصير العنب فكذلك عند أبي حنيفة خلافا لصاحبيه ولو كانت مصنوعة من العنب النيء فبيعها حرام عندهم جميعا والظاهر أن معظم "كحول" لا تصنع من عنب ولا تمر فينبغي أن يجوز بيعها لأغراض مشروعة في قول علماء الحنفية جميعا فتاوی دار العلوم زکریا (6/677) زمزم پبلشرز الکحول کا شرعی حکم سوال: الکحول کا کیا حکم ہے؟... آج کل اس میں ابتلائے عام ہے لہذا تفصیلی جواب مرحمت فرمائے؟ الجواب: جو الکحول یا اسپرٹ،منقی،انگور،یا کجھور کی شراب سے بنایا گیا ہو وہ بالاتفاق سے ناپاک ہے، اس کا استعمال اور خریدو فروخت بھی نا جائز ہے وہ الکحول یا اسپرت جو مذکورہ بالا اشیاٰء کے علاوہ کسی اور چیز مثلا جو،آلو،شہد وغیرہ کی شراب سے بنایا گیا ہو اس کی نجاست اور حرمت میں فقہاء کا اختلاف ہے امام صاحب اور امام ابو یوسف کے نزدیک اس کی اتنی مقدار حلال ہے جس سے نشہ نہ ہو-جب کہ اس کو صحیح مقصد کے لئے استعمال کیا جائے، طرب اور لہو کے طور پر نہ ہو-اور امام محمد کے نذدیک تھوڑی مقدار بھی نا جائز ہے،عام حالت میں فتوی امام محمد کے قول پر ہے مگر اسپرٹ میں عموم بلوی کی وجہ سے شیخین کے قول کے مطابق گنجائش ہے الکحول اصل شراب کے جوہر کو اور تلچھت کو کہتے ہیں۔۔۔دواؤں میں عام طور پر اسپرٹ ڈالی جاتی ہے اور اسپرٹ کا ان چار شرابوں کی جنس سے ہونا ضروری نہیں جو نجس العین ہوتی ہے بلکہ گڑ وغیرہ سے بھی بن جاتی ہے لہذا جب تک دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو جائے کہ یہ اسپرٹ جو اس دوا میں پڑی ہوئی ہے وہ انہی شرابوں کا جوہر یا تلچھٹ ہے جو نجس العین ہوتے ہیں اس وقت تک اس اسپرٹ کو ناپاک و نجس نہیں کہہ سکتے اور اس کا استعمال کرنا یا ان دواؤں کا استعمال کرنا جس میں یہ اسپرٹ پڑی ہو نا جائزو حرام نہیں کہہ سکتے منتخبات نظام الفتاوی فتاوی محمودیہ (18/188) فاروقیہ بسکت میں ٹاری کا استعمال سوال 8712 : دوکاندار ایسا بسکت فروخت کرتا ہے جس میں تاڑی کی گاد [تلچھت(وہ چیز جو مائع کی تہ میں بیٹھ جاتی ہے) ] رکھ کر تنوری میں گرمی سے تیار کیا جاتا ہے جس کو لوگ عام طور پر کھاتے ہیں اور کراہت نہیں سمجھتے- ایک شخص اس سے کہتا ہے کہ جس سے میں تاڑی ملی ہو اس کا استعمال نا جائز ہے، اسی طرح اگر مٹی ہو جائے یا جل کر راکھ ہو جاوے تو پاک ہے- خلاصہ یہ کہ تبدیل حقیقت سے ناپاک پاک ہو جا یا کرتی ہے مثلا شراب جبکہ سرکہ ہو جاوے پاک ہے- لہذا یہ تاڑی ملا کر پکا ہوا بسکٹ بھی اسی قبیل سے ہے یہ واضح رہے کہ تاڑی کا جز بسکت میں کالملح فی الطعام ہوتا ہے، یا یوں کہئیے کہ روپیہ میں آنہ بھر-تو اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس نوع کی بسکٹ کا استعمال کیسا ہے؟ الجواب: تاڑی مسکر ہوتی ہے اور امام محمد کے نزدیک مسکر حرام ہے، خواہ قلیل ہو خواہ کثیر-یہی قول مفتی بہ ہےـپس زید کا اس بسکٹ میں دالنا حرام ہے اور فروخت کرنا بقول مفتی بہ نا جائز و مکروہ تحریمی ہے اور جاننے والوں کو خریدنا اور استعمال کرنا بھی نا جائز و مکروہ تحریمی ہے (وحرمها محمد) : اي الاشربة المتخذة من العسل والتين ونحوهما , قاله المصنف(مطلقا)قليلها و كثيرها (وبه يفتي)ذكره الزيلعي وغيره, واختاره شارح الوهبانية, وذكر انه مروي عن الكل, ونظمه فقال: وفي عصرنا فاختير حد و اوقعوا طلاقا لمن من سكر الحب يسكر وعن كلهم يروي و افتي محمد بتحريم ما قد قل وهو المحرر قلت: وفي طلاق البزازية: وقال محمد: ما اسكر كثيره فقليله حرام . وهو نجس ايضا . ولو سكر منها الختار في زماننا انه يحد . زاد في الملتقي : ووقوع طلاق من سكر منها تابع للحرمة والكل حرام عند محمد وبه يفتي والخلاف انما هو عند قصد التقوى اما عند قصد التلهي فحرام اجماعا . الدر المختار ص 402 ج 1 جب ایک شئی حرام و نجس ہو تو اس میں قلیل و کثیر میں فرق کرنا ساقط ہو جاتا ہے، مثلا ایک قطرہ شراب یا پیشاب کا کنواں میں گر جائے تو سب پانی نا پاک ہو جائےگا، حالانکہ اس کو کاالملح فی الطعام کی بھی نسبت نہیں ، اور اس کا لون ، طعم ، ریح مین کوئی اثر بھی ظاھر نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس کو تبدل حقیقت سمجھیں کہ پیشاب پانی بن گیا اور تمام پانی کے جواز کا حکم لگائیں تبدل حقیقت صورت کے بدلنے سے ہوتا ہے نہ کہ حل ہو جانے سے، جیسا کہ پیشاب کا قطرہ پانی میں مغلوب اور حل ہو جاتا ہے-اور نہ اڑ جانے سے جیسا کہ کپڑے کو شراب میں بگھو کر دھوپ میں ڈال دینے سے شراب اڑ جاتی ہے، کوئی اثر نہیں رہتا ہے، مگر کپڑا ناپاک ہی رہتا ہے- اسی طرح صورت مسئلہ میں تبدل حقیقت نہیں ہوا، بلکہ تاڑی یا مغلوب و حل ہو گئے یا اڑ گئی، پس زید کا استدلال بے محل ہے احسن الفتاوی (4/488) ايج ايم سعيد الکحل والے مشروبات وماکولات کا حکم سوال: ہمارے ملک میں کوکا کولا، فانتا اور ان کے مانند دیگر مشروبات شائع ع ذائع ہیں اور کثرت سے مستعمل ہیں،بنانے والے کار خانہ سے تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان مشروبات وغیرھا میں الکحل ڈال جاتا ہے، اس الکحل کے بعض اقسام عصیرالعنب سے تیار ہوتے ہیں اور بعض اقسام آلو،کوئلہ اور گیہوں وغیرہ سے بنتے ہیں، ایک بوتل میں تقریبا ایک آدھ قطرہ ا لکحل موجود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی مشروبات محض تنعم و تلذذ کے طور پر پی جاتی ہیں-۔۔۔ نیز آج کل دواؤں میں الکحل ڈالا جاتا ہے، خصوصا ہومیوپیثھک کی کوئی دوا ہی شاید اس سے خالی ہو، ان دواؤں کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ الجواب: تحقیق سے ثابت ہوا کہ اشربہ وادویہ میں عصیر العنب یا عصیر الرطب نہیں ڈالا جاتا، دوسرے اشربہ کہ حکم کی تفصیل یہ ہے: قال العلامة الشلبي (قوله فيما اذا قصد به التقوي) علي طاعة الله او استمراء الطعام او التداوي فاما المسكر منه حرام بالاجماع اه اتقاني(حاشية علي التبيين ص47 ج 6) وقال العلامة ابن عابدين: (قوله بلا لهو وطرب) قال في المختار: الطرب خفة تصيب الإنسان لشدة حزن أو سرور اهـ. قال في الدرر. وهذا التقييد غير مختص بهذه الأشربة بل إذا شرب الماء وغيره من المباحات بلهو وطرب على هيئة الفسقة حرام اهـ ط (رد المحتار ص291 ج 5) وقال العلامة الحصكفي: (و) الرابع (المثلث) العنبي وإن اشتد، وهو ما طبخ من ماء العنب حتى يذهب ثلثاه ويبقى ثلثه إذا قصد به استمراء الطعام والتداوي والتقوي على طاعة الله تعالى، ولو للهو لا يحل إجماعا حقائق (رد المحتار ص292 ج 5) وقال في الهندية: ( وَأَمَّا مَا هُوَ حَلَالٌ عِنْدَ عَامَّةِ الْعُلَمَاءِ ) فَهُوَ الطِّلَاءُ ، وَهُوَ الْمُثَلَّثُ وَنَبِيذُ التَّمْرِ وَالزَّبِيبُ فَهُوَ حَلَالٌ شُرْبُهُ مَا دُونَ السَّكَرِ لِاسْتِمْرَاءِ الطَّعَامِ وَالتَّدَاوِي وَلِلتَّقْوَى عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ - تَعَالَى - لَا لِلتَّلَهِّي وَالْمُسْكِرُ مِنْهُ حَرَامٌ ، وَهُوَ الْقَدْرُ الَّذِي يُسْكِرُ ، وَهُوَ قَوْلُ الْعَامَّةِ ( عالمگیریه ص412 ج 5) وقال العلامة اللكهنوي: قلت اللهو و الطرب نوعان منهما مباح اذا كان خاليا عن معني المعصية ومقدماتها ونوع منها مكروهة اذا خلط بالمعصية او مقدماتها او تكون وسيلة اليها وهذا هو المراد بقوله اللهو والطرب دون الاول(عمدة الرعاية حاشية شرح الوقاية ص 66 ج 4) عبارات بالا سے امور ذیل ثابت ہوئے: ـ غیر خمر کا استعمال حد سکر سے کم تقوی واستمراء طعام کے لئے جائز ہے،زمان حاضر میں معدہ کی خرابی اور سوء ہضم کا مرض عام ہے،اس لئے مصلح معدہ و ہاضم اشیاء لوازم طعام میں داخل ہو گئی ہیں ۔نشاط وطرب کے لئے اکل و شراب مطلقا ممنوع نہیں بلکہ علی طریق الفساق ممانعت ہے اور اس میں کسی خاص ماکول و مشروب کی تخصیص نہیں،بلکہ سب ماکولات و مشروبات کا یہی حکم ہے -۔ہر لہو وطرب حرام نہیں، بلکہ اس میں کسی حرام فعل کا ارتکاب ہو یا مفضی الی الحرام ہو تو نا جائز ہے -نمبر 2 اور نمبر 3 کا حاصل تقریبا ایک ہی ہے- اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ سوال میں مذ کورہ اشیاء کا کھانا پینا حلال ہے- علاوہ ازین عموما ایسے ماکولات و مشروبات میں الکحل تعفن سے حفاظت کی غرض سے ڈالا جاتا ہے اس لئے استعمال بوجہ ضرورت میں داخل ہے، تلہی میں نہیں احسن الفتاوی (484/8) ايج ايم سعيد بھنک اور الکحل وغیرہ کے احکام کی تفصیل: سوال: بھنگ کا استعمال اکلا یا خارجا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کے شارب پر حد ہے یا نہیں؟ اور اسپرت کا استعمال کیسا ہے؟ الجواب:مسکرات کی دو قسمیں ہیں: سیال اور جامد- سیال کی دو قسمیں ہیں: -جن کی نجاست و حرمت پر اتفاق ہے، اس کی چار قسمیں ہیں: 1- انگور کی کچی شراب 2-انگور کا پختہ شراب 3-رطب کی شراب 4-زبیب کی شراب ان کا ایک قطرہ بھی حرام ہے، اگر چہھس سے نشہ نہ ہوتا ہو،اس کا دوا میں استعمال کرنا بھی اکلا و خارجا بہر حال ممنوع ہے، خواہ اپنی اصل حالت پر رہے یا کسی قسم کے تصرف سے دوسری ہیئت میں ہو جائیں -وہ اشربہ جن میں اختلاف ہے،یعنی اشربہ اربعہ مذکورہ کے سواء باقی تمام اشربہ- یہ شیخین رحمھما اللہ کے ہاں طاھر ہے اور مقدار مسکر سے کم بلا لہو بغرض تداوی وغیرہ حلال ہیں،امام محمد کے ہاں نجس اور حرام میں اگر چہ قلیل ہوں بلا غرض تداوی وغیرہ محض لہو کے لئے بالاتفاق حرام ہیں اور قدر مسکر پر بالاتفاق حد ہے- اور یہ دیگر مصنوعات میں استعمال ہونے والا الکحل انگور یا کجھور سے نہیں بنایا جاتا اس لۓ مذہب شیخين رحہما اللہ کے مطابق اس کا استعمال جائز ہے اصول فتوی کے لحاظ سے شیخین کو ترجیح ہوتی ہے الا لغرض- اگر چہ فقہاء کرام نے فساد زمان کی حکمت کی بناء پرامام محمد کے قول کو مفتٰی بہ قرار دیا ہے، مگر اب عموم بلوی اور ضرورت تداوی کے پیش نظر اصل مذھب کے مطابق جواز کا فتوی دیا جاتا ہے مسکر جامد کا حکم جامد مسکرات جیسے افیون وغیرہ کی اتنی مقدار جو بالفعل نشہ کرے یا اس میں ضرر شدید ہو حرام ہے، اسی طرح مقدار نشہ سے کم ہو لہو کے طور پر استعمال کرنا بھی حرام ہے، البتہ مقدار نشہ سے کم ہو دواء استعمال کر نا جائز ہے اور ضماد لگانا درست ہے حد سے متعلق یہ تفصیل ہے: انگور کی کچی شراب پر مطلقا حد ہے مسکر ہو یا نہ ہو- اس کے سوا دوسری سیال مسکرات میں سے مقدار مسکر پر حد ہے، قلیل پر نہیں- جامد مسکرات میں سے مقدار مسکر پر بھی حد نہیں، تعزیر ہے- قال في الدر المنتقي: ويكره اي يحرم كذا عبر في النقاية شرب دردي الخمر اي عكره والامتشاط لرجل للانتفاع به لان فيه اجزاء الخمر وقليله ككثيره كما مر ولكن لا يحد شاربه عندنا لغلبة المنقل ولنفرة الطبع عنه واعتبر الكرخي الطعم بلا سكر وبه يحد باجماع العلماء ولا يجوز الانتفاع بالخمر من كل وجه كما في المنية وغيرها لان الانتفاع بالمحرم حرام ولا يداوي به جرح ولا دبر دابة ولا تسقي ادميا ولو صبيا للتداوى(الدرر المنتقي بهامش مجمع الانهر ص 573 ج 2) وقال العلامة التمرتاشي:ويحد شاربها وان لم يسكر منها ويحد شارب غيرها (اي من المائعات المحرمة)ان سكر-(رد المحتار ص 289 ج 5) وقال ايضا في بيان المسكرات الجامدات من البنج و الحشيشية والافيون: فان اكل شيئا من ذلك لا حد عليه وان سكر بل يعزر بما دون الحد وقال العلامة ابن عابدين(قوله وان سكر) لان الشرع اوجب الحد بالسكر من المشروب لا المأكول اتقاني(رد المحتار ص 295 ج 5) وقال ايضا: (قوله ويحرم أكل البنج) هو بالفتح: نبات يسمى في العربية شيكران، يصدع ويسبت ويخلط العقل كما في التذكرة للشيخ داود. وزاد في القاموس: وأخبثه الأحمر ثم الأسود وأسلمه الأبيض، وفيه: السبت يوم الأسبوع، والرجل الكثير النوم، والمسبت: الذي لا يتحرك. وفي القهستاني: هو أحد نوعي شجر القنب، حرام لأنه يزيل العقل، وعليه الفتوى، بخلاف نوع آخر منه فإنه مباح كالأفيون لأنه وإن اختل العقل به لا يزول، وعليه يحمل ما في الهداية وغيرها من إباحة البنج كما في شرح اللباب اهـ أقول: هذا غير ظاهر، لأن ما يخل العقل لا يجوز أيضا بلا شبهة فكيف يقال إنه مباح: بل الصواب أن مراد صاحب الهداية وغيره إباحة قليله للتداوي ونحوه ومن صرح بحرمته أراد به القدر المسكر منه، يدل عليه ما في غاية البيان عن شرح شيخ الإسلام: أكل قليل السقمونيا والبنج مباح للتداوي، ما زاد على ذلك إذا كان يقتل أو يذهب العقل حرام اهـ فهذا صريح فيما قلناه مؤيد لما سبق بحثناه من تخصيص ما مر من أن ما أسكر كثيره حرم قليله بالمائعات، وهكذا يقول في غيره من الأشياء الجامدة المضرة في العقل أو غيره، يحرم تناول القدر المضر منها دون القليل النافع، لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها. وفي أول طلاق البحر: من غاب عقله بالبنج والأفيون يقع طلاقه إذا استعمله للهو وإدخال الآفات قصدا لكونه معصية، وإن كان للتداوي فلا لعدمها، كذا في فتح القدير، وهو صريح في حرمة البنج والأفيون لا للدواء. وفي البزازية: والتعليل ينادي بحرمته لا للدواء اهـ كلام البحر. وجعل في النهر هذا التفصيل هو الحق والحاصل أن استعمال الكثير المسكر منه حرام مطلقا كما يدل عليه كلام الغاية. وأما القليل، فإن كان للهو حرام، وإن سكر منه يقع طلاقه لأن مبدأ استعماله كان محظورا، وإن كان للتداوي وحصل منه إسكار فلا، فاغتنم هذا التحرير المفرد بقي هنا شيء لم أر من نبه عليه عندنا، وهو أنه إذا اعتاد أكل شيء من الجامدات التي لا يحرم قليلها ويسكر كثيرها حتى صار يأكل منها القدر المسكر ولا يسكره سواء أسكره في ابتداء الأمر أو لا، فهل يحرم عليه استعماله نظرا إلى أنه يسكر غيره أو إلى أنه قد أسكره قبل اعتياده أم لا يحرم نظرا إلى أنه طاهر مباح، والعلة في تحريمه الإسكار ولم يوجد بعد الاعتياد وإن كان فعله الذي أسكره قبله حراما، كمن اعتاد أكل شيء مسموم حتى صار يأكل ما هو قاتل عادة ولا يضره كما بلغنا عن بعضهم فليتأمل، نعم صرح الشافعية بأن العبرة لما يغيب العقل بالنظر لغالب الناس بلا عادة(رد المحتار ص 294 ج 5) منتخبات نظام الفتاوی (1/396) – رحمنانیہ ۔۔۔اب الکحل سائنتفک طریقہ سے بننے لگی ہے کہ وہ شراب نہیں رہتی بلکہ سرکہ (خل) کے حکم میں ہوجاتی ہے اسلئے جبتک دلائل شرعیہ سے یہ یقین نہ ہوجائے کہ الکحل وہی شراب کا جوہر یا تلچھٹ ہے اسوقت تک اس کے ناپاک وحرام ہونے کا اور اس کے دوا وغیرہ میں استعمال کی ممانعت یا عدم جواز کا حکم نہیں دےسکتے، اور نہ استعمال کے بعد یا جسم پر لگنے کے بعد تطھیر کا حکم دینا ضروری کہسکتے البتہ تقوی الگ بات ہوگی اور تقاضائے احتیاط کہا جاۓگا نہ کہ فتوی۔ ۔۔۔ استفدت من فتوى صديقي عمران بتيل (سائكلوالا)
|
Main Categories More Questions
|